ایران کے ساتھ تجارت پراٹھنے والے سوال

ایران کے ساتھ تجارت کے حوالے سے کسی باقاعدہ اصول و ضوابط اختیار کئے ہوئے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے ہونے کی اطلاعات میڈیا کے کسی ذریعے سے نہیں بلکہ انگریزی محاورے کے مطابق ”فرام دی ہارسز مائوتھ” کے تحت موصول ہوئی ہیں جن پر تشویش کا اظہار کئے بناء نہیں رہا جا سکتا سینیٹ کے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سلیم مانڈی والا کے مطابق ایران کے ساتھ تجارت حوالہ ہنڈی کے تحت ہو رہی ہے ایران کی درآمدات سے بیس ارب روپے کسٹمز ڈیوٹی حاصل ہو رہی ہے ، سینیٹر انوشہ رحمن کی صدارت میں قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس میں پاکستان ایران ترجیحی تجارت معاہدے پر غور کیا گیا ، دوران اجلاس سینیٹر سلیم مانڈی والا نے کہا کہ ایران کے ساتھ تجارت کے لئے ای فارم ہی سیٹیٹ بنک جاری نہیں کرتا ایران کے ساتھ ساری تجارت حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے ہورہی ہے اس لئے ایران کے ساتھ تجارت کے لئے ای فارم جاری کروانے کے اقدامات کئے جائیں انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ سمگلنگ کو ہم خود بڑھا رہے ہیں کھانے پینے کی اشیاء کی تجارت پر کوئی پابندی نہیں ہے بارٹر ٹریڈ میں بھی اس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے کہ پابندی والی اشیاء کی تجارت نہ ہو تو یہ اطلاعات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہیں کہ ایران سے لاکھوں لیٹر تیل روزانہ سمگل ہو کر آرہا ہے جس سے مبینہ طور پر اہم حلقے تو روزانہ کروڑوں کما رہے ہیں مگر اس سے پاکستانی قومی خزانے کو نقصان ہو رہا ہے یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران بارڈر کا دورہ کرتے ہوئے ایرانی حکام کے ساتھ بارٹر سسٹم تجارت کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی تھی اور جیسا کہ سلیم مانڈی والا نے واضح کر دیا ہے کہ اشیائے خوردنی کی تجارت پر کوئی قدغن نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ سٹیٹ بنک کم از کم اس شعبے میں تجارت کے لئے ای فارم جاری کرکے ہنڈی حوالہ کے ذریعے بھاری آمدن ضائع کرنے سے گریز کرے اور ای فارم جاری کرکے قیمتی زرمبادلہ میں اضافہ کرنے کی تدبیر کرے ۔

مزید پڑھیں:  بی آر ٹی بسوں میں خواتین کی ہراسگی