طالبان کی ممکنہ حکومت کو تسلیم کرنے کا عندیہ

اخباری اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے افغانستان کے بیشتر علاقوں کے بعد چمن سے متصل باب دوستی گیٹ کا کنٹرول بھی سنبھال لیا گیا ہے دوسری طرف برطانوی وزیر دفاع نے طالبان کی جانب سے افغانستان میں حکومت تشکیل دینے کی صورت میں ساتھ کام کرنے کا اشارہ دے دیا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے حکومت بنانے سے متعلق برطانوی وزیر دفاع بین ویلس نے کہا ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان نے حکومت تشکیل دی تو عالمی برادری کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ ان کے ساتھ ملکر کام کریں۔بین ویلس نے کہا کہ عالمی قوانین پر عمل کرتے ہوئے برطانیہ بھی افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرے گا لیکن اگر حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تو تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ کے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا امکان متنازع ہوگا، لیکن بہتر ہوگا کہ طالبان اور افغان صدر اشرف غنی ملکی استحکام کے لئے مل کر کام کریں۔طالبان کا باب دوستی پر قبضہ اور بلوچستان کی سرحد سے متصل افغان علاقے کا انتظام سنبھالنا اتنا اہم نہیں جتنا برطانیہ کیجانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا عندیہ ہے ۔ طالبان بیشتر سرحدی علاقوں پر قبضہ کے بعد کابل کی طرف بڑھیں گے جس سے قبل برطانوی وزیردفاع کی جانب سے ان کو تسلیم کرنے کا عندیہ طالبان کے لئے یقیناً تقویتکا باعث ہو گا ساتھ ہی یہ دنیا کے دوسرے ممالک کے لئے بھی طالبان کی ممکنہ حکومت کو تسلیم کرنے کی ضرورت کااحساس دلائے گا۔دوسری طرف طالبان کی جانب سے یہ حوصلہ افزاء اعلان سامنے آیا ہے کہ طالبان کے ‘دعوت اور رہنمائی کمیشن کے سربراہ امیر خان متقی کی جانب سے ایک ویڈیو پیغام میں افغانستان کے علمائ، بااثر شخصیات، حکومتی ذمہ داران اور سرکاری ملازمین پر واضح کیا گیا ہے کہ اطراف میں جنگ مکمل ہو جائے تو مرکزی شہروں میں افغان طالبان کی جنگ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔امیر خان متقی نے کہا،ہم نہیں چاہتے کہ مرکزی شہروں میں کاروبار زندگی اور تجارت متاثر ہو، صحت کے مراکز بند ہو جائیں اور عام لوگ متاثر ہوں۔انہوں نے مزید کہا،ہم با اثر شخصیات کو باور کرانا چاہتے کہ وہ سامنے آئیں اور حکومتی ذمہ داران کے ساتھ بات کر کے اپنی مرضی سے حکومتی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جائیں تاکہ حکومتی مشینری اسی طرح چلتی رہے اور کسی قسم کا نقصان نہ ہو۔ امیر خان متقی نے اپنے پیغام میں مزید کہاطالبان نے یہ بھی فیصلہ کیا ؟کہ وہ لوگ جو پارلیمان کے ممبران ہیں یا سینیٹرز ہیں ان کو کچھ نہ کہا جائے اور ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے کیونکہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ اداروں کے کام میں کوئی دخل ہو اور سب کچھ ٹھیک طریقے سے چلتا رہے۔طالبان اس اعلان پر قائم رہتے ہیں اور اس پر عملدرآمد کریں تو افغانستان میں خانہ جنگی کے بغیر اقتدار اور حکومت کے معاملات کا آگے بڑھنا ممکن ہو گا جو وقت کی ضرورت اور دنیا کے تمام ممالک کا مطالبہ ہے۔طالبان کو انسانی حقوق اور دیگر معاملات میں پہلے سے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ بین الاقوامی برادری کوان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں مشکل کا سامنا نہ ہو اور ان کے خلاف پراپیگنڈے کا کسی کو موقع نہ ملے۔
وزیر اعظم کے عزم کی تکمیل کے تقاضے
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں ایسے الیکشن کروائیں گے جس کے نتائج سب قبولکریں گے ۔انہوں نے کہا کہ ملک میں 1970ء کے الیکشن کے علاوہ تمام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا ملک میں ایسے الیکشن کروائیں گے جس کے نتائج سب قبول کریں گے وزیر اعظم عمران خان کا شفاف انتخابات کے حوالے سے عزم اپنی جگہ خوش آئند ضرور ہے لیکن جب انتخابات ہو رہے ہوں گے تو ان کی حکومت نہ ہو گی اور وہ خود ایک فریق ہوں گے جو ہر قیمت پر انتخابات میں کامیابی کی دوڑ میں شریک ہوں گے اس لئے ان کا بیان اس وقت تک اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جائے گا جب تک وہ اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیں گے اور ملک کی سیاسی جماعتیں ماضی کی طرح اقتدار کے لئے ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے عوام کی طرف دیکھنے کا فیصلہ نہ کریںایسا تبھی ممکن ہو گا جب تمام سیاسی جماعتیں ہر قسم کی عدم مداخلت اور شفافیت پر متفق ہوں اور اس پر عمل کریں تمام سیاسی جماعتیں جب بالاتفاق عدم مداخلت کا فارمولہ اپنائیں گی تبھی میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی کے مصداق انتخابی نتائج تبدیل کرنے والے کرداروں کا کردار کم سے کم رہ جائے گا اور اگر ہوئے بیمارجس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں والا معاملہ ہوا تو پھرلاکھ جتن کے باوجود انتخابی نتائج پر انگلیاں ضرور اٹھیں گی اور نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا لامتناہی سلسلہ منقطع نہیں ہو گااور شفاف انتخابات کا انعقاد خواب ہی ر ہے گا۔
یہ کافی نہیں
خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کی جانب سے صوبہ میں خوراک کا معیار جانچنے اور نظام میں شفافیت یقینی بنانے کے لئے ٹی ٹی آئی لیب کے ساتھ تھرڈ پارٹی ٹیسٹنگ کے لئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط مثبت پیش رفت ہے جس سے ادارے کے عملے کو آسانی اور قانونی تحفظ ضرور حاصل ہو گا۔لیکن ادارے کی کوششوں کے باوجود عوام کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق معیاری خوراک کے حوالے سے مشکلات ادارے کی کارکردگی پرسوالیہ نشان ہے جس پرتوجہ کی ضرورت ہے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کے حکام ادارے کو مزید فعال بنا کرملاوٹ کرنے والے اور زائدالمعیاد اشیاء خوردنی اورحفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہ رکھنے والے عناصر کا مکمل سدباب کرنے کی ذمہ داری پوری کریں گے اور عوام کو صاف اور صحت بخش خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے گا۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !