مشرقیات

اس دنیا سے رخصت ہونے والے سابق صدر پاکستان ممنوں حسین جیسے مرنجان مرنج شخص نے ایک مرتبہ ایسی بات کی کہ پوری قوم کو حیرت زدہ کردیا اور ان کی بات پتھر پہ لکیر ثابت ہوئی کرپٹ لوگوں کے بھی مختلف درجات ہیں کوئی زیادہ کرپٹ ہے ‘کوئی درمیانہ کرپٹ ہے ‘کوئی غیر معمولی کرپٹ ہے وہ جو غیر معمولی کرپٹ ہے کبھی آپ دیکھئے گا منحوس چہرے ہوتے ہیں ان کے چہرے پہ نحوست ٹپک رہی ہوتی ہے ان کے ‘اس طرح کے لوگ ضرور پکڑ میں آتے ہیں کوئی جلد اور کوئی بدیر۔ہم ممنوں ہیں بلکہ حد درجہ ممنون ہیں اس صاف گو صدرکے جو اب مرحوم ہوچکے ہیں جس طرح کی صاف گوئی کا مظاہرہ انہوں نے کرتے ہوئے پیشگوئی کی اس کے بعد واقعی کیسے کیسے لوگوں کے چہرے سامنے آتے گئے چلیں ہم بھی کہاں پھنس گئے آج ان لوگوں کو پشیمانی
ضرور ہوتی ہو گی جو ممنون حسین جیسے شخص کو صدرمملک بنانے پر دہی بھلوں کا مذاق اڑاتے قوم کو ممنوں ہونا چاہئے کہ کپڑے کے سوداگر نے ایوان صدر میں کسی کے کپڑے نہ اتارے اور نہ ہی کوئی پٹاخہ قسم کی ترانہ اس سے ملنے آئی او واپسی پر قومی ترانہ بن کر سلیوٹ کی حقدار بنیں تفصیل میں جائیں تو مرحومین کی روح تڑپ اٹھے گی جن جن نے ایوان صدر میں گانا سنا اور”ترانہ” بجایا یا پھرموسیقی کی سرتال کو داد عیش دی سب نے حاضر ہونا ہے جواب دہی سب کی ہونی ہے ایوان صدر میں بڑے اڑیل قسم کے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے ایسے ایسوں پر پستول تاننے کی جرأت کی کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں بندہ تیار ہو کہ ایسے نہیں جانا تابوب میں جانا ہے تو پھر اگلے کا جنازہ بھی نکال سکتا ہے ایوان صدر کی رنگینوں میں کیا کھونا اور پانا ہے ہما شما کیا جانیں ممنوں حسین خود بھی صاف گوتھے اپنے ساتھ چاپلوس قسم کے لوگ نہیں رکھے برادرم فاروق عادل صدر ممنوں حسین کے پریس سیکرٹری تھے ایک دن ملے تو کہنے لگے کہ میرا سیل نمبر بھی وہی میں بھی وہی کچھ بھی نہیں بدلا واقعی جب کراچی واپس ہوئے تو پھر سے قلم کے مزدور ہی بنے ۔ جامع کلاتھ میں کپڑے کا سوداگر ممنوں حسین دکاندار ہوئے ہوئے بھی دکاندار ثابت نہیں ہوئے ان کو یاد رہا کہ آخر میں چند گزلٹھا ہی چاہئے ہوتا ہے اور سکندر جب گیا دنیا سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے ۔ ممنوں حسین بزنس اعلیٰ پیشہ ورانہ ڈگری کے حامل خوش الحانی سے قرأت کرتے اورباجماعت نماز کے پیش امام تک بنتے بندہ کوئی ان کی ریکارڈ شدہ تلاوت سنے تو کلین شیو ممنوں حسین کو نہ جانے کیا سمجھے ۔ کردار کا غازی ایوان صدر میں بدکرداری کے ریکارڈ کی بجائے حسن کردار اور حسن قرأت کا مظاہرہ کرنے والے کو خراج تحسین یقیناً وہ جس کامیابی کی تلاش میں تھے وہ ایوان صدر میں تھی نہ جامعہ کلاتھ میں کپڑے کے کاروبار میںان کو ملنا تھا ان کو جو ملنا تھا وہ مل چکا ہو گا۔ ہماری بھی ان کے لئے دلی دعا ہے کہ وہ مقام ان کو ضرور ملے جواس فاقہ مست کی حقیقی منزل تھی۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !