سر پہ تاج رکھا ہے بیڑیاں ہیں پائوں میں

اب کیا کیا جائے ‘ مجبوری جو ہوئی ‘اور سیانے یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ مجبوری کا دوسرا نام شکریہ ہے ‘ سو وفاقی وزیر اطلاعات کا شکریہ ادا کرنے کے سوا چارہ ہی کیا ہے ‘ وہ اس لئے کہ کم از کم انہوں نے”بروقت” ا طلاع تو کردی ہے ۔ یعنی
موذن مرحبا بروقت بولا
تری آواز مکے اور مدینے
ہم ویسے بھی اس ریاست مدینہ میں رہ رہے ہیں جسے یار لوگ اصلی ریاست مدینہ کا ریپلیکا یعنی”نقل” قرار دے کر دل پشوری کرتے رہتے ہیں ‘ سو اگر اس ریاست مدینہ میں کوئی”سچ” بولنے پر آمادہ ہو ہی گیا ہے تو اس کے بیانیے کو سرآنکھوں پررکھ لینے میں حرج ہی کیا ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ ایسے مواقع پر سیانے کچھ ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جن میںمبینہ طور پر ”منہ ٹیڑھا تو اس سے بات تو اچھی نکالنے والی” صورتحال پر زور دیا جاتا ہے ‘ خبر جانے دیں ہم عوام ہیں اور عوام گزشتہ 70سال سے زیادہ عرصے سے یتیم والے منصب پر براجمان ہیں ‘ یعنی ان کا کام صرف رونا ہی ہے سو رو رہے ہیں ‘ روتے رہیں گے اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہو گا ‘ ایسی حالت میںان پر وزیر اطلاعات کے ان تازہ فرمودات کا کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے ‘یعنی وہ جو موصوف نے فرمایا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں گیس نہیں ہو گی ‘ اس وزارتی پیغام کے اندر”عقل ودانش” کی ایک دنیا آباد ہے ‘ پہلا اور ترنت پیغام تو یہ ہے کہ جورات 9بجے سے صبح پانچ بجے تک (اخباری اطلاعات کے مطابق) لوگوں کو قدرتی گیس نہیں مل رہی ہے ‘ یہ دراصل چند برس بعد کی صورتحال کی ”نیٹ پریکٹس” ہے جس کا مقصد ابھی سے لوگوں کو آنے والی صورتحال کا عادی بنانے کی کامیاب کوشش ہے ‘ حالانکہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ تقریباً دو ڈھائی مہینے پہلے ایک خبر آئی تھی کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں ‘ تو سوال اٹھنا فطری امر ہے کہ اگر واقعی محولہ خبر درست تھی تب چند برس بعد گیس ” ندارد ” کا فلسفہ کیا معنی رکھتے ہیں؟ خیر جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے ‘ کہ ہم عوام تو ویسے بھی ”خواہ مخواہ” کے زمرے میں شمار ہوتے
ہیں ‘ جونہ تین میں ہیں ‘ نہ تیرہ میں ‘ یعنی جو”سچ” ہمیں ہضم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ہماری پہنچ اسی تک محدود ہے ‘ اگرچہ ایسے مواقع پر ہم ایران کے ساتھ ہونے والے (فی الحال امریکی دبائو پرمعطل) اس معاہدے کی بات ہی نہیں کرتے جس پر اگر عمل درآمد کی کوئی صورت نکل آئے تو ہمارے گیس کے مسائل حل ہو سکتے ہیں ‘ نہ ہی ہم تاپی گیس معاہدے پر بات کرنا چاہے ہیں ‘ جس میں پہلے طالبان کی ملا عمر حکومت آڑے آئی ‘ اور اس کے بعد وہاں صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے یہ معاہدہ بھی تعطل کاشکار رہا ‘ اور اب بھی نہیں لگ رہا کہ کب حالات نارمل ہوتے ہیں اور یہ معاہدہ اس کی تمام تر جزئیات کے ساتھ روبہ عمل آکر خطے کے تمام متعلقہ ممالک کے لئے”خوش بختی” کا باعث بنتا ہے ‘ خطے کے حالات پر تزویراتی گہرائی میں جا کر نظر ڈالنے سے ان نازک معاملات کا پتہ چلتا ہے جو بڑی طاقتوں کے لئے ”ناقابل قبول” کے سرخ نشان پر جا کر خطرے کی گھنٹی بجا دیتا ہے اس لئے نہ صرف ”سی پیک” جیسے معاہدے ” یوٹرن ” کی پالیسیوں کا شکار ہوجاتے ہیں بلکہ تاپی گیس معاہدہ بھی وقت کی دھول میں گم ہونے پر مجبورہو کر دیا جاتا ہے ‘ یعنی بقول شاعر
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی
سرپہ تاج رکھا ہے بیڑیاں ہیں پائوں میں
اب تک جن منصوبوں کا ذکر ہم نے کیا ہے یہ ویسے بھی”بڑے لوگوں کی بڑی باتیں” ہیں اور ہم ٹھہرے غریب غربے ‘جن کو اگر گیس نہ ملے تو متبادل ڈھونڈنے پر مجبور ہونا فطری امر ہے ‘ اور ماضی میں جب ہمارے پاس گیس نہیں تھی تو ہم کئی ایسے طریقے استعمال کرتے تھے جن کا مقصد روز مرہ زندگی کے معاملات سے نمٹنا ہوتا تھا ‘ اس صورتحال نے ہمیں اپنے بچپن اور لڑکپن کی دنیا میں پہنچا دیا ہے جب عموماً لوگ مختلف طور طریقوں سے زندگی گزارنے کے عادی تھے ‘ مثلاً ہم جس علاقے میں رہتے تھے وہاں گوجروں کے گھروں میں متعدد بھینسیں ‘ گائے وغیرہ ہوتی تھیں جن سے نہ صرف وہ دودھ حاصل کرکے اپنا گزر بسر کرتے تھے بلکہ ان گائیوں اور بھینسوں کے بائی پروڈکٹ (گوبر) کو اکٹھا کرکے انہیں اپلوں کی صورت میں دیوار پر تھاپ دیتے اور خشک ہونے پر سستے داموں فروخت کرکے لوگوں کو متبادل ایندھن کے طور پر استعمال کرنے میں مدد گار بنتے ‘ یہ توانائی حاصل کرنے کا سب سے موثر اور سستا ترین ذریعہ تھا ‘ اسی طرح شہر بھر میں لکڑی کے ٹال (اب بھی کہیں کہیں موجود ہیں) سے لوگ نہ صرف درختوں کی بڑی بڑی شاخوں اور تنوں کوکٹی ہوئی شکل میں خرید لاتے ‘ نانبائی بڑے سائز کے ٹکڑے لا کر تنور میں ڈالتے اور ان پر روٹیاں پکاتے ‘ جبکہ گھریلوصارفین چھوٹے سائز کے ٹکڑے انگیٹھیوں اور چولہوں میں جلاتے ‘ متمول لوگ لکڑی کا کوئلہ بھی لا کر نہ صرف کھانا پکانے بلکہ کمروں کوگرم رکھنے کے لئے بروئے کار لاتے ‘ جبکہ شہر بھر میں چائے کی دکانوں کا استعمال کرتے جن میں یا تو آرا مشینوں سے لکڑی کی حرائی کے دوران بننے والے لکڑی کی برادے کو بوریوں میں بھر کر گھروں میں ذخیرہ کیا جاتا اور استعمال کیا جاتا ‘ یا پھر دھان سے چاول نکالنے کے پراسس کے دوران جوچھلکا اترتا جسے پشتو میں”خمچے” کہتے ہیں ‘ ان کو محولہ انگیٹھیوں میں مخصوص طریقے سے بھر کر نہ صرف کھانا پکانے بلکہ سرشام ہی کمروں کے اندر رکھ کر ٹھنڈ کوبھگانے کے لئے استعمال کیا جاتا یہ چند ایک طریقے تھے جن سے متبادل ایندھن حاصل کیا جاتا ‘ سو اگر اب بھی گیس نہیں ملے گی تو کونسی قیامت آجائے گی ‘ اور یہ جو سولر سسٹم ایجاد ہوا ہے تو لوگ اس سے بھی بھر پور استفادہ کرسکتے ہیں نہ صرف بجلی بلکہ توانائی حاصل کرکے اپنا کام چلا سکتے ہیں ‘ مگر مسئلہ بہرحال یہ ہے کہ آخر سرکار کس مرض کی دوا ہے ؟کیا عوام کو ڈرانا ہی اس کا کام رہ گیا ہے ؟ اور عوام اقتدار سونپ کر کس گناہ کی پاداش میں ان کی چنائو نیاں برداشت کریں گے؟ بقول اکبر الہ آبادی
واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کردیا کعبہ کو گم اور کلیسا نہ ملا

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟