سعودی عرب ‘ حقائق اور پروپیگنڈا

حرمین الشرفین کے سبب سعودی عرب دنیا کا بہت اہم ملک ہے ۔ اسلامی ممالک میںاس کی جودینی حیثیت اور مقام ہے’ وہ کسی دوسرے اسلامی ملک کوحاصل نہیں ۔ اسلامی ممالک میں عام طور پر اس کو احترام وتقدس کی نگاہ سے د یکھا جاتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات بعض اسلامی کے سیاسی امور و معاملات میں اختلافات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ شام’ یمن ‘ لیبیا کی خانہ جنگیوں میں اس کے اپنے مفادات کے حوالے سے کردار کے سبب کئی ایک اسلامی ممالک کے ساتھ اس کے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ان ہی معاملات کے سبب گزشتہ عشروں میں ایران و سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہت تنائو رہا ہے ‘ اور اس کے اثر دیگر ملکوں بالخصوص پاکستان پر بھی پڑتے رہے ہیں۔ اگرچہ اب تھوڑا بہت گزارہ پاکستان کی طرف سے دونوں کے درمیان تحمل و برداشت کی تلقین سے ہو گیا ہے ۔
تاریخی طور پرسعودی عرب اور پاکستان کے درمیان بہت مضبوط تعلقات رہے ہیں۔ سعودی عرب نے مشکل معاشی حالات میں پاکستان کی ہمیشہ مدد کی ہے جس کے بدلے میں پاکستان کا ہر فرد سعودی عرب کی سلامتی و تحفظ کے لئے مستعد رہا ہے اور ہے اور یہ سب حرمین الشرفین کی برکات ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں عمران خان اور سعودی عرب میں ایم بی ایس کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بعض اوقات اتنی گہرائی اور مٹھاس پیدا ہوئی ہے کہ عمران خان ‘ایم بی ایس کے دورہ پاکستان کے دوران ان کی گاڑی خود چلاتے رہے ہیں اور عمران خان کے دورہ سعودی عرب میں ان کوخصوصی پروٹوکول اور قیمتی تحائف سے نوازا گیا ۔ لیکن بعض دفعہ حالات اس نہج پر بھی پہنچے کہ سعودی عرب نے عمران خان سے ہنگامی طور پردو ارب ڈالر”ایتھے رکھ” کا مطالبہ بھی کیا۔ لیکن شکر ہے کہ اس وقت پھر گزارہ ہو گیا ہے کہ تین ارب ڈالر نقد اور ڈیڑھ ارب کا پٹرول ملے گا اگرچہ اس دفعہ شرائط بہت سخت ہیں۔ لیکن چلو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کچھ اچھے ہو گئے ۔ سعودی عرب کے بارے میں گزشتہ کئی ایک برسوں سے تسلسل کے ساتھ پاکستان اور بعض دیگر اسلامی ملکوں میں مذہب و تہذیب اور روشن خیالی و جدیدیت کے حوالے سے پروپیگنڈا بھی جاری ہے ۔سوشل میڈیا کے ذریعے یہ بات بہت شدومد سے پھیلائی جارہی ہے کہ محمد بن سلمان ‘ اسلامی تہذیب و ثقافت کی جگہ جدیدیت یعنی مغربیت کوفروغ دینے میں لگا ہوا ہے ۔ ا سرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات استوار کئے ہوئے ہیں اور اس تناظر میں پاکستان پر بھی دبائو ڈالنا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں ترقی کے نام پر قدیم سعودی عرب کی بعض روایات کو بے دردی کے ساتھ ختم کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ اس تناظر میں پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر خبر عام ہوئی کہ سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پرپابندی لگادی گئی ہے اس خبر کے چلتے ہی ہندوستان کے بعض علماء اور مدرسہ دیوبند کی طرف سے تحفظات کا اظہار بھی سامنے آیا ہے ۔ پاکستان میں ٹی وی چینلز پر اس حوالے سے گفتگو کے پروگرام منعقد ہوئے عوام کے دلوں میں واقعی ہیں اس حوالے سے بہت تشویش پیدا ہوئی۔ کیونکہ پاکستان میں ایم بی ایس کے حوالے سے کچھ اس انداز سے پروپیگنڈا ہوتا رہا ہے کہ اس کا مذہبی پہلو بہت مجروح نظر آتا ہے ۔ اس لئے اس خبر نے بھی پایہ تحقیق تک پہنچنے سے قبل ہی عوام الناس کوکافی حد تک متاثر کیا۔ لیکن بھلا ہو ہمارے تبلیغی بزرگوں کا کہ بعض لوگوں نے جب ان کے نقطہ نظر کواس حوالے سے جاننا چاہتا تو انہوں نے اپنے روایتی دھیمی ودعوتی لہجے میں کہا کہ دعوت و تبلیغ کے کام پر کوئی پابندی لگائے یا حوصلہ افزائی کرے ‘ اس کی پرواکئے بغیر اپنے انداز میں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ دراصل بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے اندر بعض مذہبی حلقے جنہیں کٹر سلفی کہا جاتا ہے ان پر ان کے بعض حرکات و اعمال اور ارادوں کے سبب شاید کچھ پابندیاں لگوائی گئی ہیں جس کو یار لوگوںنے تبلیغی جماعت پر پابندی سے موسوم کیا۔ اس س لسلے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے خوب تحقیق کی جائے تب کوئی رائے ظاہر کی جائے ۔ مسلمانان کا روحانی تعلق حرمین الشرفین سے ہے اور الحمد للہ ان دونوں مقدسات کے تقدس و حفاظت کے حوالے سے ساری دنیا کے مسلمان متفق ہیں۔جہاں تک سعودی عرب کے اندرونی و داخلی معاملات کا تعلق ہے ‘ تو اس میں مداخلت کرنا میرے خیال میں دخل در معقولات کی مانند ہے ۔ البتہ بعض حوالوں سے یہ باتیں ایک مدت بلکہ نائن الیون کے بعد سے سامنے آرہی ہیں کہ سعودی عرب ہی اب بہرحال آج سے بیس چالیس سال قبل والا مذہبی اور روایتی بدوازم کا نظام ضرور تبدیلی کی زد میں ہے ۔ اس تناظر میں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے بعض علماء و سکالروں کی کتب و تصانیف بھی لائبریریوں اور مکتبوں سے شاید اٹھوایا گیا ہے اور یہ بھی سعودی عرب کا خالص داخلی معاملہ ہے ۔ ہر ملک کی اپنی خارجہ داخلہ اور تعلیمی پالیسی ہوتی ہے جس کے مطابق معاملات طے کئے جاتے ہیں ۔ ایران میں بھی تبلیغی جماعت پر پابندی ہے کوئی اور بھی لگانا چاہے ‘ تب بھی اسلام کی دعوت و تبلیغ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !