غربت کا خاتمہ اور سیاحت کی ترقی

وزیرا عظم عمران خان کی اس بات سے اصولی اتفاق کئے بناء نہیں رہا جا سکتا کہ پسماندہ علاقوں کی ترقی سے ملک میں غربت کا خاتمہ ممکن ہے ‘اور اسی کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے انہوں نے بالکل درست کہا ہے کہ غریبوں کو اوپر لائے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا ‘ وزیر اعظم نے سیاحت کوپاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاحت قوموںکی ترقی میںاہم کردار ادا کرتی ہے ،سوئٹزر لینڈ گلگت بلتستان سے رقبے میں آدھا ہے جبکہ وہ سیاحت سے 70ارب ڈالر کماتا ہے ‘ تو ہم کیوں نہیں کما سکتے ‘ سکردوایئر پورٹ کو بین الاقوامی ایئرپورٹ کا درجہ دینے اور سکردو روڈ کی جدید خطوط پر تعمیر کرنے کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سیاحت گلگت بلتستان کا اثاثہ بن سکتا ہے ‘ سیاحت قوموں کی ترقی میںاہم کردار ادا کرتی ہے ‘ آسانیاں بڑھنے سے سیاحت میںبھی ا ضافہ ہو گا ‘ گلگت بلتستان کو کشمیر سے منسلک کر رہے ہیں ‘ جہاں تک سیاحت کے فروغ سے ملکی ترقی کا معاملہ ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھرمیں کئی ایسے ممالک ہیں جو صرف سیاحت کے شعبے کو ترقی دے کر اپنی آمدنی بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں ‘ سیاحت کے ساتھ کئی دیگر شعبے متحرک ہوجاتے ہیں مقامی طور پر روزگار بڑھ جاتا ہے’ ٹرانسپورٹ کا شعبہ فعال ہو جاتا ہے ‘ چھوٹے ہوٹلوں سے لے کر اعلیٰ معیار کے ہوٹلوں کا قیام مستقل نوعیت کے روزگار کا باعث بنتا ہے ‘ مقامی سطح کی کاٹج انڈسٹری الگ سے عام لوگوں کی آمدن بڑھانے کا باعث بنتی ہے ‘ غرض کئی طرح کے شعبہ جات ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں ‘ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاحت کے لئے قدرتی وسائل رکھنے والے علاقوں کوجان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے اور ماضی میں حکومتوں نے اس شعبے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی ‘ جس کی وجہ سے ان خوبصورت پہاڑی علاقوں کے لوگوں پر مقامی سطح پر روزگار کے دروازے بند رہے اور انہیں رزق کمانے کے لئے بڑے شہروں ‘ کراچی ‘ لاہور ‘ پشاور وغیرہ آنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے’ حالانکہ دنیا بھر میں سمجھدار قوموں نے اپنے سیاحتی علاقوں کو ترقی دے کر دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور یوں ڈالروں پرڈالروں کے انبارلگاتے رہے ‘ بہرحال اب جبکہ موجودہ حکومت نے بھی اپنے سابقہ نقطہ نظر سے رجوع کرتے ہوئے ”سڑکیں بنانے”کے ”فضول شوق” کوکارآمد تسلیم کر ہی لیا ہے اور سڑکیں بنانے والے اداروں کو خراج تحسین پیش کرنا شروع کر دیا ہے، تو امید ہے کہ اب ہمارے دن پھر جائیں گے اور ملک میں سیاحت کے شعبے کو ترقی دینے اور اس سے ملک میں خوشحالی لانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا ‘ معاملہ صرف گلگت بلتستان تک ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بہ آسانی رسائی تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ سکردو ایئرپورٹ کو بین الاقوامی سطح کی سہولیات کے ساتھ عالمی سطح کا مستقر بنانے کے ساتھ ساتھ متعلقہ علاقوں میں تین ستاری سے پنج ستاری ہوٹلوں کے قیام ‘ معیاری ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنے اور دور دراز علاقوں میں سیاحوں کے لئے کیمپنگ کی سہولتیں بھی مہیا کی جائیں تاکہ دنیا بھر سے سیاح بڑی تعداد میں ان علاقوں کی جانب متوجہ ہو کر قیمتی زرمبادلہ یہاں خرچ کرنے کے لئے آمادہ ہوسکیں اور یوں ملکی آمدنی کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کرنسی بھی قومی خزانے میں پہنچ سکے اور ہمارے غیرملکی کرنسی میں اضافے سے ہمیں دوسروں کا دست نگر نہ ہونا پڑے۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟