سعودی عرب میں ثقافتی تبدیلیاں

یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ سعودی عرب کی سرزمین دنیا بھر کے اور بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے کتنی مقدس ہے اور بہت سی باتوں میں تو ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے اختلافات میں پڑنے کی بجائے سیدھا سعودی عرب کی پیروی کریں جس کی بڑی مثال عید کی ہے کہ چاند نکلنے یا نہ نکلنے میں ملک عزیز میںاکثر بحث چلتی رہتی ہے اور بارہا یہ مشورہ ، عوامی، سیاسی، دینی بلکہ حکومتی حلقوں سے بھی آیا ہے کہ کیوں نا ایسا کیا جائے کہ بس جیسے ہی سعودی عرب میں چاند نکلنے یا عید کا اعلان ہو پاکستان بھی ان ہی کے ساتھ عید منائے۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح ہے کہ ہمارے ملک کے مسلک اور سعودی عرب کے مسلک میں فرق ہے ہمارے کئی لوگ حج وعمرہ کرنے جاتے اور جنت البقیع یا دیگر زیارتوں پر اصرار کرتے ہیں تو وہاں کے قانون کے محافظ ہمیں اس طرح کرنے سے روکتے ہیں اور اسے بدعت کا درجہ دیتے ہیں اس اختلاف کے باوجود سعودی عرب ہمارے لئے معتبر تھا اور رہے گا۔ لیکن آج کل وہاں جو کچھ ہورہا ہے اسلامی ثقافت کو چھوڑ کر ہندوثقافت یا پھر غیر اللہ کو خوش کرنے کے جو اقدامات ہورہے ہیں اس پر ساری دنیا کے مسلمانوں کی طرح پاکستان کے مسلمان بھی پریشان ہیں۔
سعودی عرب کی مقدس سرزمین پر یکے بعد دیگرے مختلف ثقافتی تبدیلیاں آرہی ہیں ان میں سینما گھروں کا کھل جانا، خواتین کو بغیر محرم کے گھروں سے نکلنے کی اجازت اور اس سے بڑھ کر مسلمان عورت کو گاڑی چلانے تک کی اجازت مل چکی ہے یہ سلسلہ نہ ختم ہونے کے لئے شروع کیا گیا ہے اب بتوںکو ماننے والوں کے لئے بھی جگہ بنانے کے لئے کوششیں رواں دواں ہیں کیونکہ عرب کے دیگر ملکوں جن میں دبئی بھی شامل ہے میں مندر وغیرہ کھل چکے ہیں اور کوئی بعید نہیںکہ چند ہی برسوں میں سعودی عرب میں بھی یہ اجازت دے دی جائے یوں غیر اللہ کو ماننے والوں کو منع کرنے والی سرزمین پر بھی بت خانے بنائے جانے کی تیاریاں عروج پر ہیں ۔
ظاہر سی بات ہے کہ جب غیر اسلامی اقدار کو دھیرے دھیرے فروغ دیا جائے گاتو اسلام کی شاندار روایات کی روک کے لئے بھی راہ تلاش کی جائے گی۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہندوستان کی ثقافت کو سعودی عرب میں متعارف کروانے کے لئے ان کے فلم انڈسٹری کے فنکاروں کو باقائدہ سرکاری عزت و احترام دیا گیا ۔
غیر مسلموں جن میں امریکہ اور اسرائیل تو ہیں ہی ان کا لے پالک بتوں کو پوجنے والا ملک ہندوستان بھی شامل ہے ہر روز ایک نئی چال چلتے ہیں کہ کسی طور مسلمانوں کی اس مقدس سرزمین کو تہس نہس کردیا جائے آج سے چند برس قبل تک تو جنگوں سے یہ کام لیا جاتا رہا ایران اور عراق جنگ پھر شام و لبنان ودیگر اسلامی ممالک کو آپس میں لڑکر ان میں نسل پرستی اور عقیدہ پرستی کے نام پر نفاق ڈالاجاتارہا ہے اس نفاق نے پھر جنگ کی شکل اختیار کی اور اسی جنگ میں ان اسلام دشمن ملکوں نے یہ جان لیا کہ مسلمانوں کے اتحاد اور ثقافت کو یوں جنگوں سے نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا لہٰذا انہوں نے ثقافتی جنگ بھی شروع کردی اور یوں میڈیا وار کے ذریعے اسلامی اقدار کو نقصان پہنچانا شروع کیا۔ اس کی ایک سادہ مثال سی این این کی ہے جو کہ ایک انٹرنیشنل نیوز چینل ہے جس نے عراق کی جنگ میں جنم لیا بلکہ یہ طے ہونا باقی ہے کہ جنگ کے لئے پہلے پلاننگ ہوئی یا اس نیوز چینل کے لئے کیونکہ اس نیوز چینل نے عراق کی جنگ میں بڑھ چڑھ کے رپورٹنگ کی بلکہ یو ں کہا جائے کہ جیسے آج کل بولی ووڈ کی اداکارائیں کہہ رہی ہیں کہ بولڈ کیریکٹر کیا کچھ اسی طرح سے سی این این نے بھی عراق کے محاذ جنگ میںبڑے بے باک انداز اور بولڈ ہو کر رپورٹنگ کی اور خوب نام کمایا، جب عراق میزائل اور بم گرائے جارہے تھے تو یہ چینل ہر ایک میزائل کو کیمرے کی آنکھ میں فلم بند کر کے دنیا بھر کو بے وقوف بنا رہا تھا تاہم اس کا اصل ٹارگٹ سعودی حکام اور امریکی عوام تھی یوں ان دونوں کو جی بھر کا بے وقوف بنایا گیا اس پروپیگنڈہ پر زوروں سے کام ہوا کہ عراق کے پاس دنیا جہان کے خطرناک ہتھیار ہیں اور ان ہتھیاروں سے نہ صرف سعودی عرب، کویت اور ایران کو ملیا میٹ کر سکتا ہے بلکہ امریکہ کے مفادات کو بھی عبرت ناک شکست دے سکتا ہے ، دنیا بھر کے دانشوروں کی طرح امریکہ کے صاحب عقل لوگوں نے کلنٹن اور پھر بش حکومت کو سمجھایا کہ کوئی بھی جنگ گولہ باروداور عددی برتری سے ماضی میں کبھی جیتی جاسکی ہے اور نہ ہی آج کے جدید دور میں جیتی جاسکتی ہے بلکہ جنگیں صرف اور صرف جزبوں اور عوامی حمایت سے ہی جیتی جاتی ہیں اور امریکہ کے لئے دنیا بھر میں اتنی نفرت ہے کہ ویت نام کی جنگ کو ہوئے برسوں بیت گئے مگر امریکہ کی شکست کو ابھی بھی لوگ یاد کرتے ہیں ، کچھ اسی طرح سے افغانستان اور عراق کا بھی حال ہے یہاں کے عوام بھی امریکیوں کو کبھی بھی اچھا نہیں سمجھتے لہٰذا ان کی حمایت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
جنگ ختم بھی ہوگئی، صدر صدام حسین کو پھانسی بھی دے دی گئی ، عراق میں اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت بھی بٹھادی گئی مگر وہ خطرناک ترین کیمیائی ہتھیار نہ مل سکے وہ تو جیسے گدھے کے سر کے سینگوں کی طرح غائب ہوگئے، کسی طرح کے ہتھیا ر ہوتے تو ملتے یہ تو صرف میڈیا وار تھی سب کچھ جھوٹ موٹ کا ہوا تھا، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر دکھایاجاتا رہا، نہتے اور مجبور عراقیوں کی چیخ و پکار کوئی نہ سن سکا مگر اس مکار چینل کی بے پر کی سب سنتے رہے۔ان جنگوں کے خاتمے کے بعد عراق و افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے نکل جانے سے سادہ لوح مسلمان یہ سمجھے کہ چلوجان چھوٹی اور کافروں کو شکست ہوئی لیکن اس کے اثرات اب ظاہر ہورہے ہیںکہ انہوں نے جنگ کی آڑ میں ہماری ثقافت کو تباہ کیا اور یوں عرب کے دیگر ممالک کے بعد اب سعودی عرب میں بھی ان کی ثقافت کا جادو سر چڑھ بول رہاہے۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے