بے وقعت انتخابی عمل کی لاج رکھی جائے

الیکشن کی شفافیت کے دیگر تقاضوں میں ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کے لئے انتظامات نہ صرف بروقت مکمل ہوں بلکہ عملہ الیکشن ڈیوٹی کے مقام پرحاضر ہو اور انتظامات میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔احسن انتظامات کے باوجود بھی الیکشن کے دوران بدانتظامی اور نواقص کی گنجائش رہتی ہے اور شکایات سامنے آئی ہیں ووٹنگ کا عمل تک متاثر ہوتا ہے نتائج پر بھی اس کے اثرات پڑتے ہیں مگر جہاں حکام از خود اور اپنے فیصلوں سے انتخابی نظام اور عمل کو سبوتاژکرنے لگیں تو پھراس امر کی توقع ہی عبث ہے کہ انتخابات کے عمل سے لوگوں کوشکایات نہ ہوں سمجھ سے بالاترامر یہ ہے کہ عین انتخابات سے ا یک دن قبل اس طرح کی صورتحال کیوں پیدا کی گئی ہمارے نامہ نگار کے مطابق بلدیاتی انتخابات سے محض ایک روز قبل ہی پولنگ عملہ کی ڈیوٹیاں تبدیل کردی گئیں جس کے باعث کئی اہلکاروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور امیدواروں نے بھی انتخابی عمل پر اعتراض اٹھا دیا ہے ۔گزشتہ روز کئی ملازمین کو اچانک سے وٹس ایپ کے ذریعے ہدایات جاری کی گئیں کہ ان کی ڈیوٹی کا مقام تبدیل کردیا گیا ہے اور اب وہ ایک اور مقام پر ڈیوٹی کریںگے اسی طرح کئی ملازمین کی ڈیوٹیاں اچانک سے لگا دی گئی ہیں اور انہیں آگاہ تک نہیں کیا گیا ہے ان ملازمین نے الیکشن ڈیوٹی کے حوالے سے تربیت بھی حاصل نہیں کی ہے اور اب اچانک سے انہیں ڈیوٹی پر طلب کرلیا گیا ہے ڈیوٹیوں کی تبدیلی کے حوالے سے نئے مقام پر عملہ کے پہنچنے کا بھی مسئلہ انہیں درپیش ہے جبکہ امیدواروں کی جانب سے بھی انتخابی عملہ کی شفافیت پر سوال اٹھایا گیا ہے خواتین عملہ کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور خواتین عملہ کی ڈیوٹی ان کے علاقے سے انتہائی دور مقام پر لگائی گئی ہے ۔ذرائع کے مطابق بعض کلاس فورملازمین کانام پولنگ سٹاف میں شامل ہونے اورکئی جگہوں میں ایک ہی اہلکارکی ایک سے زائدجگہ پرڈیوٹی جیسی غلطیوں کی نشاندہی کے بعد الیکشن ڈیوٹیوں میں تبدیلی کی گئی، الیکشن کمیشن کے ترجمان کا موقف ہے کہ ڈیوٹیاں لگانا ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر یعنی ڈپٹی کمشنر کا اختیار ہے۔ عملہ کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے کئی مسائل سامنے آ رہے ہیں۔دریں اثناء وزیر اعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے جہاںصوبے میں پرامن اور سازگار ماحول میں انتخابات کے انعقاد کے لئے عملہ چوبیس گھنٹے ایمرجنسی کنٹرول روم میں موجود رہے گا جبکہ یہ بلدیاتی انتخابات کے دوران معلومات اور ہنگامی صورتحال کے بارے میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ قریبی رابطے میں رہے گا۔ یہ ایمرجنسی کنٹرول روم کسی بھی ناخوشگوار واقعے یا ہنگامی صورتحال میں انتظامیہ، پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کرے گا۔ الیکشن کے دوران کسی ناخوشگوار واقعے یا امن و امان کی صورتحال سے متعلق معلومات براہ راست وزیراعلیٰ کو فراہم کی جائیں گی اور اس پر ان کی ہدایات کی روشنی میں عمل درآمد کیا جائے گا۔معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ صوبے میں پرامن و شفاف بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے خیبرپختونخوا حکومت ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔ایک جانب حکومت اس طرح کے مثالی انتظامات کی سعی میں ہے اور دوسری جانب ایک ضلعی انتظامی افسر کا یہ معاندانہ رویہ اور فیصلہ ‘سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ حکومت ایک طرف جارہی ہے اور بیورو کریسی دوسری جانب ماجرا کیا ہے کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ محولہ ماحول اور صورتحال میں کس طرح سے اس امر کی توقع کی جا سکتی ہے کہ آج ہونے والے الیکشن بحسن و خوبی ہو سکیں گے ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر قواعد و ضوابط اور پابندیوں کی دھجیاں اڑا دی گئیں جو بہت قابل اعتراض امر ہے الیکشن کمیشن نے وزراء کو جرمانہ بھی کیالیکن خلاف ورزیاں اس سطح پر ہوئیں جس سطح پر خلاف ورزیوں کی قبل ازیں شاید ہی کوئی مثال ملے ۔ جب حکومت کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز عہدیدار اور آئینی ادارے کے سربراہ تک کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی پرواہ نہ ہو تو پھرڈپٹی کمشنر کی سطح پر اس طرح کے فیصلے اچھنبے کی بات نہیںاور اس کے فیصلے کی باآسانی سمجھ بھی آتی ہے اس کے پس پردہ عوامل کو بھی سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ ایک جانب الیکٹرانک ووٹنگ کو شفافیت لانے کے لئے متعارف کرانے پر زور دیا جارہا ہے اور بے جان مشینوں سے توقعات وابستہ کی جاتی ہیں جبکہ حکومت اور حکومتی مشینری کا کردار و عمل سراسر برعکس ہے الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم اور سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف جو نوٹس لیا ہے اگر ان خلاف وزریوں کو سنجیدگی سے لیا گیا اور ثابت بھی ہوئے تو ہر دو عہدیداروں کی نشست تک خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔ ڈپٹی کمشنر پشاور نے یہ فیصلہ کیوں کیا اس سے اس حوالے سے باز پرس ہونی چاہئے دیکھا جائے تو ایک سرکاری افسر بلاوجہ اور بغیر کسی دبائو کے اس طرح کی حماقت کا ارتکاب نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی سرکاری افسر کی ایسی دلچسپی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے شوق کو پورا کرنے کے لئے پورے انتظامات کو اتھل پتھل کردے اس کا کھوج لگانا چاہئے اور عوام کے سامنے اصل حقائق لانے کی ضرورت ہے جبکہ آئندہ اس طرح کے فیصلوں کا تدارک کرنے کے لئے باقاعدہ طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عین وقت پر خواہ مخواہ کی مداخلت اور دبائو کا شکار ہو کر انتخابی نظام عمل کو تہس نہس نہ کیا جا سکے ۔ ماحول اور انتظامات کو دیکھ کر توقع نہیں کی جا سکتی کہ آج کے بلدیاتی انتخابات بحسن و خوبی انجام پائیں گے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک مضبوط امیدوار کی ٹارگٹ کلنگ واضح شکست سے فرار اور انتخابی عمل کو ملتوی کرنا مقصودتھا یا اس کے پس پردہ دیگر عوامل کارفرما تھے بظاہر تو یہ قتل سیاسی ہی لگتا ہے جس کا انتخابی ماحول پر اثرات پڑ سکتے ہیں ان سطور کی اشاعت تک اب جبکہ انتخابی عمل شروع ہو چکا ہے جو ہوا سو ہوا کے مصداق جاری عمل ہی کو پرامن اور شفاف بنانے کی سعی کی جائے اور انتخابی نتائج کا جلد اور شفاف اجراء کیا جائے تاکہ بے وقعتی کا شکار انتخابی عمل کی کچھ تھوڑی بہت ہی لاج رہ جائے ۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !