طاقِ نسیاں

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کا فرمان ہے کہ وکلا اور ججوں کے درمیان جھگڑے کا کوئی جواز ہی نہیں، وکلا برادری کا کام ججوں اور عدالت کی معاونت کرنا ہے، لیکن وکلا اپنی ذمے داری نبھانے کے بجائے ججوں سے بدتمیزی کرتے ہیں جو ایک غیر مہذب عمل ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ جو وکلا کل کو جج کے مسند پر بیٹھیں کے آج وہی اس مسند پر بیٹھے جج کی توہین کرتے ہیں، بدتمیزی، بدزبانی اور تشدد وکلا کا شعار بن چکا ہے، حالانکہ وکلا اور عدالتوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جب چولی چھوٹی ہو اور دامن تار تار کر دیا جائے تو پھر کس کی چولی اور کس کا دامن یہ دیکھنا کوئی گوارہ نہیں کرتا، سبھی اپنی برہنگی چھپانے کے جتن کرتے ہیں، ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جج سینئر وکیل ہوتے ہیں، جونیئر اور سینئر کے درمیان کچھ ایسے معاملا ت ہوتے ہیں جو باعث رنجش بنتے رہتے ہیں اور یہی رنجشیں جونیئر کو سینئر سے بدکلامی اور دست و گریباں ہونے پر اکساتی ہیں۔ چیف صاحب نے بری دلچسپ بات کہی ہے فرماتے ہیں عدالتی فیصلے موسم کے تابع نہیں ہوتے کہ سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرما گرم فیصلے سنائے جائیں، ہمیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ زمینی حقائق سرد اور گرم فیصلوں کی تائید کررہے ہیں اور ان حقائق کا اعتراف بھی کررہے ہیں عدالت کا فیصلہ بااثر وکیل کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی جج اور جسٹس بار کونسل کا بوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا، یوں بھی عزت، بے عزت لوگوں کو پیاری ہوتی ہے، مشاہدہ کہتا ہے کہ بے عزت لوگ بھی خود کو عزت دار کہتے ہیں، اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان اور عدالتوں کو ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے، ”پِلاّ” نہ پڑھا جائے کہ دونوں ہی قوت فیصلہ کے معاملے میں انتہائی کمزور ہیں۔
چیف صاحب کا یہ فرمان ناقابل تردید ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور آزاد رہیں گی، اس ضمن میں عقل کا کوئی دشمن ہی تذبزب میں مبتلا ہو سکتا ہے مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آزادی سے فیصلہ دیں گی کا کیا مطلب ہے، کیا عدالتوں کے فیصلے آزادانہ نہیں ہوتے، مزید فرماتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہماری ذمے داری ہے، اور ہم اس ذمے داری سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے کیونکہ حلف کی خلاف ورزی ناقابل تلافی ہوتی ہے، یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ وطن عزیز کا ہر سربراہ حلف اٹھاکر بھول جانے کے مرض میں مبتلا ہے۔ وہ اپنی مسند پر جلوہ فگن ہوکر حلف نامے کو طاقِ نسیاں میں رکھ دیتا ہے۔گزشتہ دنوں بہاولپور ہائی کورٹ جانا ہوا جو کچھ وہاں دیکھا اگر نہ دیکھتے تو اچھا ہوتا، ہم نے دیکھا کہ سماعت کے لیے جونہی آواز پڑی مدعی کے وکیل نے کہا کہ پیشی دے دی جائے کیونکہ اس نے ابھی تک مقدمہ کی فائل نہیں دیکھی مخالف وکیل نے کہا کہ جناب والا مقدمہ 20سال سے زیر سماعت ہے اور فاضل وکیل ہی مدعی کے وکیل ہیں، سول کورٹ اور سیشن کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا ہے اور اب ہائی کورٹ میں عرصہ 8سال سے زیر سماعت ہے مگر جسٹس صاحب نے کوئی توجہ ہی نہ دی اور ایک ماہ کی پیشی دیدی، دوسری پیشی پر آئوٹ آف اسٹیشن کی درخواست جمع کرادی گئی اور تیسری پیشی پر تیسرے مدعی کا وکالت نامہ جمع کرانے کے لیے پیشی طلب کر لی گئی مگر اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جسٹس صاحب نے مسکراتے ہوئے وکالت نامہ داخل کرنے کے لیے ایک ماہ کی مزید پیشی دیدی، حالانکہ وکالت نامہ دوسرے دن بھی جمع کرایا جاسکتا تھا، ہم یہ سوچ کر دریائے حیرت میں ڈبکیاں کھانے لگے کہ جسٹس صاحب مسکرائے کیوں حالانکہ انہیں وکیل سے پوچھنا چاہیے تھا کہ آٹھ سال بعد وکالت نامہ داخل کرانے کا کیا جواز ہے، ہماری معلومات کے مطابق آٹھ سال بعد کسی فریق کا وکالت نامہ داخل کرانا عدالت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
چیف جسٹس کے اس فرمان کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ جج اور جسٹس صاحب مقدمات کی سماعت بڑی ایمانداری اور آزادی سے کررہے ہیں، کسی مائی کے لعل میں یہ جرآت ہی نہیں کہ ان کے معاملات میں مداخت کر سکے روکنا تو دور کی بات ہے کوئی ٹوکنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتا، کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ چیف صاحب کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ وکلا جج صاحبان سے بدکلامی کرتے ہیں، ان کی بے عزتی کرتے ہیں، مارپیٹ کرنے اور جج صاحبان کو تشدد کا نشانہ بنانے سے بھی نہیں چوکتے، موصوف کو اس حقیقت کا بھی احساس ہے کہ نظام عدل کی گاڑی اگاڑی مارنے سے نہیں چل سکتی سو ضروری ہے کہ وکلا جج اور جسٹس صاحبان سے لڑنے کے بجائے تعاون کریں، ہمیں یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ وکلا کی روش اور رویے نے عدالتوں کو بھی مچھلی مارکیٹ میں تبدیل کر دیا ہے، سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہر جج عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے قصیدے پڑھنا اپنی ذمے داری کیوں سمجھتا ہے اور بڑے فخر کے ساتھ عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کے قصے بھی سناتا ہے مگر آج تک کسی چیف جسٹس کو یہ توفیق کیوں نہ ہوئی کہ وہ جعلی مقدمات کی سماعت اور عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہونے والے مقدمات کی اپیل کی سماعت پر پابندی لگائے۔ حالانکہ محترم جسٹس جواد الحسن اور دیگر نامور جج اور جسٹس صاحبان یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ثبوت کے بغیر مقدمات کی سماعت نا انصافی کی مکروہ ترین صورت ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عدلیہ کے دروازے پر دستک دینا ہر شہری کا حق ہے مگر یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ جس شخص کو ایزا رسانی کا ہدف بنایا جاتا ہے اور حق سے محروم کرنے کی سازش کی جاتی ہے وہ بھی تو اس ملک کا شہری ہے اس کے حقوق کا تحفظ کرنا بھی عدلیہ کی ذمے داری ہے، مگر عدالتیں حق دار کو حق سے محروم کرنے کے لیے وکلا کو قانونی مو شگافیوں کے حربے استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دے کر حق دار کے حق کو کند چھری سے ذبح کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی ستم بالائے ستم یہ کہ اس شرمناک فعل کو اپنی ذمے داری اور عدلیہ کی آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
دیکھ لینا کہ ہر ستم کا نام
عدل ہوگا کسی زمانے میں

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے