امریکہ چین کشیدگی ،کیا پاکستان غیرجانبداررہے گا؟

وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان چین اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی میں کسی ایک ”پاور بلاک” کا حصہ نہیں بنے گا، بلاشبہ یہ ایک جرات مندانہ بیان اور اُس نقصان کی یاد دہانی ہے جو پاکستان نے کئی دہائیوں پہلے سابق سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے کر اٹھایا ہے۔1979ء میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستان پر جارحیت کی تو پاکستان واضح طور پر اس کے خلاف امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوا، بلاشبہ یہ اقدام ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے لئے اپنی قانونی حیثیت تسلیم کروانے میں مدد گار ثابت ہوا تھا جوکہ اس سے پہلے کڑی اقتصادی پابندیوں اور سیاسی تنہائی کا شکار تھی چنانچہ اس کے بعد امریکہ اور مغربی ملکوں سے امداد ملنا شروع ہوئی جو جنرل ضیاء الحق کے لئے بہت اہمیت کی حامل تھی کیونکہ اس سے ملکی معیشت کو بڑی حد تک سہارا ملا تھا جبکہ حکومت کو بھارت کے دبائو سے نمٹنے کے لئے بھی فائدہ پہنچا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس اقدام سے اقتدار پر فوجی قبضے کو جائز تسلیم کر لیا گیا تھا اور امریکہ اُس وقت تک ملک میں فوجی آمریت کو نظر انداز کرنے پر آمادہ تھا جب تک پاکستان اُس کی لاجسٹک اور فوجی مدد اور کلیدی اتحادی کا اہم کردار ادا کرتا رہے۔ وزیر اعظم خان کے حالیہ پالیسی بیان سے یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان کسی بھی اتحاد کا باضابطہ یا غیر رسمی طور پر فریق بننے کی غلطی نہیں دہرائے گا۔ اگرچہ یہ پالیسی ہمارے تجربے کی بنیاد پر بہت معنی رکھتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ایسا ممکن ہے اور کیا ہم اپنی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر کار بند رہ سکیں گے ؟ مثلاً پاکستان نے امریکہ کی طرف سے حال ہی میں منعقد کئے جانے والے جموریت کے بارے میں عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں اور اس کی کوئی خاص وجہ بھی بیان نہیں کی لیکن بنیادی طور پر یہ اقدام چین اور روس کی حمایت کا عندیہ ہے کیونکہ ان دونوں بڑی طاقتوں کو اس اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا تھاچنانچہ پاکستان کے اس جذبے کو چینی حکومت نے سراہا اوراس کے ترجمان نے پاکستانی عوام کو ”آہنی بھائی” ہونے کی یاد دلائی۔ علاوہ ازیں چین کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ اور بھارت کی شراکت داری بھی ایک اور عنصر ہے جو پاکستان کے لئے بڑی طاقت کی مخاصمت سے دور رہنا مشکل بناتا ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود پاکستان امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے اور حال ہی دور ے پر آئے امریکی سینیٹروں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعظم خان نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان گہری اور مضبوط شراکت داری باہمی طور پر مفید اور خطے کے امن، سلامتی اور خوشحالی کے لئے اہم ہے۔ کئی ایسے عوامل بھی موجود ہیں جن کے بنیاد پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان طویل مدتی تعلقات استوار ہو سکتے ہیں، پاکستان دوسرا سب سے زیادہ آبادی کا حامل مسلمان ملک ہے اور ا س کی سٹرٹیجک اہمیت بھی ہے ،چنانچہ پاکستان میں امریکی کمپنیوں کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے بے پناہ مواقع موجود ہیں ،اسی طرح بیرون ملک یونیورسٹیوں میں داخلے کے خواہشمند پاکستانی طلبہ کے لئے امریکہ ابھی بھی پرکشش مقام ہے۔ وہ طلبہ جنہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہے وہ ایک مفید رابطے کا کام کرتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان پل بنانے میں بہت مدد گارہیں۔ بظاہر بھارت کے ساتھ واشنگٹن کے قریبی تعلقات اور چین کے ساتھ پاکستان کے سٹریٹجک اور اقتصادی مراسم امریکہ کے ساتھ تعاون پر مبنی اور فعال تعلقات میں رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں ، امریکہ کی جانب سے چین کے خلاف وسیع اتفاق رائے پیدا کرنے کے بعد پاکستان کے لئے چین پر انحصار کرتے ہوئے خارجہ پالیسی اور تزویراتی سمت میں عمل کی زیادہ آزادی برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی کا اصل ہدف چین کو کمزور کرنا ہے اور اس کے لیے وہ چین کے قریبی سٹریٹجک شراکت داروں کو اُس سے دور کرنا ضروری سمجھتے ہیں ، ظاہر ہے پاکستان اس حد تک کبھی نہیں جائے گا جو چین کا بہت زیادہ مقروض ہے اور اسے حقیقی معنوں میں ایک قابل بھروسہ اتحادی سمجھتا ہے اس لئے وہ کسی بھی قیمت پر یہ راستہ ترک نہیں کرے گا ۔ تاہم وہ امریکہ کے ساتھ متعدد شعبوں میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہے جہاں مفادات مشترک ہیں۔اس کے علاوہ ماضی میں کئی مواقع ایسے بھی آئے ہیں جب امریکہ نے پاکستان کی پالیسیوں کو ناپسند کیا اور اس پر پابندیاں عائد کیں جن کے سنگین نتائج اس کی معیشت پر پڑے ہیںچنانچہ ان تمام وجوہات کی بنا پر امریکہ کے ساتھ معاملات میں محدود امید ہی رکھی جا سکتی ہے۔سٹریٹجک صف بندی اور فوجی سازوسامان کی صورت میں ہونے والی دیگر پیشرفتیں بھی امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کو بڑھا رہی ہیں اوران ملکوں کے لئے گنجائش محدودہورہی ہے جو اس مخاصمت سے دور رہنے کے خواہشمند ہیں۔
( بشکریہ، عرب نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے