افغانستان میں غذائی بحران

افغانستان میں غذائی بحران شدید ہو گیا ہے، متاثرین میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے جو غذائی کمی کی وجہ سے بلک رہے ہیں، مگر امریکہ سمیت مغربی ممالک نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ افغانستان کے10ارب ڈالر کی خطیر رقم منجمد کر دی گئی ہے، یہ انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔اس وقت افغانستان کی مالی مشکلات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اپریل سے تاحال سرکاری ملازمین کو تنخواہ نہیں دی گئی ہے،کیونکہ افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان کی حکومت کے پاس اس قدر وسائل نہیں ہیں کہ سرکاری ملازمین کو بروقت تنخواہ دے سکیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں۔
سخت سردی اور برفباری نے افغان عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے، برفباری کے مہینوں کے دوران افغانستان کے لوگ راشن کا بندوبست کر کے گھروں میں مقیم ہو جاتے ہیں، کیونکہ افغانستان کے اکثر علاقوں میں کاروبار سے لے کر نظام زندگی تک معطل ہو جاتا ہے، ان مہینوں میں لوگ گھروں میں ٹھہرے رہتے ہیں اور سردی ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں، ان دنوں قہوہ، ڈرائی فروٹ اور جمع شدہ راشن پر گزارہ کرکے لوگ زندہ رہتے ہیں تاہم اس بار سردیاں ایسے وقت میں آئی ہیں کہ بیس سالہ طویل جنگ کو ختم ہوئے محض تین ماہ ہوئے ہیں، طالبان حکومت نے اگرچہ امریکہ کی تمام شرائط تسلیم کر لی ہیں لیکن امریکہ کے رویئے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، امریکہ کا یہ رویہ انسانی حقوق کے خلاف ہے، جب مغربی ممالک میں ایسا المیہ جنم لیتا ہے تو تمام مغربی ممالک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جاتے ہیں اور مسلمان ممالک بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں، لیکن جب کسی مسلمان ملک پر افتاد ٹوٹتی ہے تو مغربی ممالک کا رویہ مایوس کن ہوتا ہے۔ اہل مغرب کا انسانی حقوق کا نعرہ بالکل کھوکھلا ہے، مسلمان ممالک کو اب یہ جان لینا چاہئے کہ مغربی ممالک کے انسانی حقوق کے نعرے میں صرف غیر مسلموں کے درد بانٹے جاتے ہیں، مسلمانوں کی ثانوی حیثیت بھی نہیں ہے، جب مغربی ممالک کے مفادات ہوتے ہیں تو تب ہی وہ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرتے ہیں۔
المیہ تو یہ ہے کہ امریکہ خود افغانستان کی مدد کر رہا ہے نہ ہی وہ یورپی ممالک کو افغانستان کے ساتھ تعاون کی اجازت دے رہا ہے، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں جنگ کے خاتمے کیلئے طالبان سے مذاکرات کئے ، مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے لیکن چونکہ افغانستان سے واپسی اس انداز میں نہیں ہو سکی ہے جس طرح امریکہ چاہتا تھا کیونکہ جس انداز میں امریکہ کی افغانستان سے واپسی ہوئی ہے اس میں امریکہ کی شکست نمایاں ہو گئی ہے، امریکہ اس میبنہ ناکامی کی سزا طالبان کو دینا چاہتا ہے، ایک لمحہ کیلئے اگر امریکہ کے اس مؤقف کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو افغانستان کے عوام کا کیا قصور ہے، افغان عوام کو اس کی سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ معاہدے کے سہولت کار بخوبی جانتے ہیں کہ افغانستان کے دس ارب ڈالر منجمد کرنا سراسر معاہدے کی خلاف ورزی ہے مگر امریکہ سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایسے حالات میں او آئی سی کا فعال ہونا بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ان حقائق کے بعد مسلمان ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے افغان بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑیں، پاکستان کی کوششوں سے اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا ایجنڈہ افغانستان کے ساتھ تعاون کیلئے مسلمان ممالک کو آمادہ کرنا ہے، پاکستان مسلمان ممالک کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوا ہے کہ افغانستان میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اگر بروقت اس کا تدارک نہ کیا گیا تو ہم خدا کے مجرم ٹھہریں گے۔ پاکستان کی کوششوں کا ثمر ہے کہ ستاون اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اعتماد کیا ہے اور وہ پاکستان میں افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران کی کوششیں بھی قابل ستائش ہیں، ان دو ممالک کی چونکہ افغانستان کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں اس لئے پاکستان اور ایران فکر مند ہیں کہ اگر افغانستان کی طرف فوری توجہ نہ دی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ افغانستان کے لاکھوں عوام ہجرت پر مجبور ہو جائیں جنہیں سنبھالنا قطعی طور پر آسان نہیں ہو گا۔
افغان عوام کو اس وقت خوراک، گرم کپڑوں، ادویات،بچوں کے دودھ اور لکڑی و کوئلے کی شدید ضرورت ہے، او آئی سی اجلاس میں اگرچہ وسائل اورافغانستان کے موجودہ مسائل کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے گا جس میں افغانستان کے بینکنگ سسٹم کو مدد فراہم کرنا شامل ہے لیکن ہنگامی بنیادوں پر خوراک کا انتظام ہونا بہت ضروری ہے تاکہ سردی کے ایام میں انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔ستاون اسلامی ممالک کی کل آبادی ایک ارب پچاس کروڑ سے متجاوز ہے، اگر اس آبادی کی اکثریت افغان عوام کیلئے صرف ایک ڈالر کی مدد فراہم کرے اور صاحب ثروت افراد دس ڈالر کی مدد کریں تو افغان عوام کیلئے اربوں ڈالرز کی رقم مسلمان ممالک جمع کر سکتے ہیں، سو ضروری ہے کہ او سی آئی کے فورم پر حکومتیں افغانستان کے ساتھ تعاون کریں لیکن ہر ملک اپنے عوام سے بھی درخواست کرے کہ وہ اس خیر کے کام میں شامل ہونا چاہیں تو وہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر او آئی سی ایک مستقل فنڈ قائم کر دے جس کا مقصد امت مسلمہ کے مستحقین لوگوں کی مدد کرنا ہو تو یہ اہم پیش رفت ہو گی، عراق، لیبیا، شام، فلسطین اور یمن جیسے ممالک مسلم امہ کے سرکردہ ممالک کی مدد کے منتظر ہوتے ہیں، مسلم ممالک کے ان فنڈز کو بوقت ضرورت استعمال میں لا کر متعلقہ علاقے کے مسلمانوں کو مشکل سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !