او آئی سی کی نبض چلنے کے آثار

افغانستان کی صورت حال پر غور کرنے کے لئے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اکتالیس برس بعد ایک بار پھر اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔اس اجلاس میں افغانستان کی موجودہ معاشی صورت حال اور وہاں اُبھرنے والے انسانی المیے کے مختلف پہلوئوں پر بات ہوتی رہی ۔مجموعی طور پر تمام شرکاء کے گفتگو میں افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے کی سوچ نمایاں تھی ۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں افغان مسئلے کی کئی جہات پر بات کی اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ افغانستان کو طالبان کے زاویے سے دیکھنے کی بجائے انسانی زاویے سے دیکھا جائے ۔افغانستان کو اس وقت طالبان سے دیکھنے کا سب سے بڑا محرک ہے جو اس احساس کا شکار ہے کہ کہ وہ بیس سال افغانستان میں پورا زور بازو صرف کرنے کے باوجود اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا اور آخر کار وہ اس ملک کو اسی منظر کے ساتھ چھوڑگیا جسے ختم کرنے اوربدلنے کے لئے وہ افغانستان میں آیا تھا ۔او آئی سی کے اجلاسوں کا انعقاد از خود ایک بڑی بات ہے کیونکہ مسلمانوں کی یہ تنظیم آخری ہچکی لے کر دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئی ہے ۔پانچ اگست 2019کو بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی پر او آئی سی کو سانپ سونگھ گیا تھا ۔چند ایک مسلمان ممالک تھے جنہوںنے بھارت کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کی تھی اور یہ وہی ممالک تھے جنہوں نے او آئی سی سے مایوس ہو کر کوالالمپور میں جمع ہو نے کی کوشش کی تھی ۔پاکستان نے او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس بلا کر کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی کے بھارتی فیصلے پر واضح لائن لینے کے دبائو بڑھانا شروع کیا مگر او آئی سی کی انتظامیہ نے پاکستان کی ان درخواستوںکو قابل اعتنا ء نہیں سمجھا ۔جس کے بعد یہ سار ا لاوا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک بیان سے پھٹ پڑا اور انہوںنے دوٹوک انداز میں کہا کہ اگر او آئی سی نے وزرائے خارجہ کا اجلاس نہ بلایا تو پاکستان ہم خیال ملکوں کا الگ اجلاس بلائے گا ۔ پاکستان کی معیشت اگر عرب ملکوں کے تعاون سے کھڑی ہے تو عرب ملکوں کے دفاع میں پاکستان کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔اس لئے یہ تعاون یک طرفہ اور مفت کا نہیں بلکہ اس میں لواور دو کا روباری اصول بھی کہیں نہ کہیں کارفرما ہے ۔ اوآئی سی کی اس خاموشی کو نریندر مودی نے پانچ اگست اقدام کی تائید قرار دیا ۔کشمیریوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ دنیا میں ان کا مونس وغم خوار سوائے پاکستان کے کوئی دوسرا مسلمان ملک نہیں اور پاکستان میں اب کشمیریوں کی حمایت کا دم خم باقی نہیں رہا ۔اس تاثر کو طیب اردووان اور مہاتیر محمد جیسے مدبر مسلمان راہنمائوں نے اپنے کردارو عمل اور فیصلوں سے رد کرکے کشمیریوں کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان ان کی حمایت میں تنہا کھڑا نہیں بلکہ مسلمان دنیا کے کئی موثر ملک بھی اس کے ہم آواز اور ہم رکاب ہیں۔ مودی کے پھیلائے گئے اس غلط تاثر کے خراب ہونے کا غصہ ان ملکوں کے ساتھ کئی معاشی تعلقات میں کمی کی صورت میں سامنے آیا ۔ ترکی اور ملائیشیا کو پاکستان کے ساتھ کھڑا رہنے کی معاشی قیمت بھی چکانا پڑی ۔ نائیجریا اجلاس میں پانچ اگست کے بھارتی اقدام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی توہین قرار دیا گیا ۔یہ قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئیں ۔پاکستان کو آئندہ تین سال کے لئے او آئی سی کی چھ رکنی ایگزیکٹو کونسل کا رکن بھی منتخب کیا گیاتھا ۔یہ فیصلہ بھی ہوا تھاکہ او آئی سی وزرائے خارجہ کا اگلا اجلاس پاکستان میں منعقد ہوگا ۔یہ ساری صورت حال بھارت کی طرف سے کئے جانے والے پروپیگنڈے کی نفی تھی اسلام آباد میں ہونے والا اجلاس اسی فیصلے کا نتیجہ ہے ۔نائیجر اجلاس میںہونے والے فیصلوں سے او آئی سی میں زندگی کے آثار بھی پیدا ہوئے تھے اور اس کے مستقبل کے حوالے سے شکوک اور غیر یقینی کے بادل بھی چھٹ کر رہ گئے تھے ۔چھپن ملکوں کا ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد ہے ۔یہ مسلمان اکثریتی ملکوں کی تنظیم ہے جس کا مقصد اپنی آبادیوں کی فلاح وبہبود اور مسلمانوں کو درپیش سیاسی ،سماجی اور معاشی مسائل کا حل ہے ۔اس اتحاد کے موجود ڈھانچے سے کسی انقلابی فیصلے کی توقع عبث ہے مگر اتحاد کے قیام اور وجود کا جواز باقی رہے یہ بھی غنیمت ہے ۔یہ ڈھیلا ڈھالا اتحاد بھی ختم ہو گیا تو مسلمانوں کے پاس جمع ہونے کے کوئی پلیٹ فارم باقی نہیں رہے گا ۔دوبارہ اتحادبنانے کے لئے نئے سرے سے جو محنت اور اتفاق رائے درکار ہے اسے موجودہ ماحول میں دوبارہ پیدا کرنا قطعی ناممکن ہے ۔اس لئے مسلمانوں کا یہ پلیٹ فارم جیسا تیسا ہے اسے برقرار رہنا چاہئے ۔ فی الحال یہ بھی کافی ہے کہ سارک تنظیم کی طرح او آئی سی کو ہائی جیک کرنے کی بھارتی کوشش ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے ۔بھارت مسلمان آبادی کا سب سے بڑا خطہ ہونے کی بنیاد پر او آئی سی کے خیمے میں سر دینے کا پرانا خواہش مند ہے ۔یہ خواہش مدتوں سے ایک خواب ہی ہے اور آئندہ بھی اس کو تعبیر ملنے کی امید نہیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں