مشرقیات

بلدیات کو نمائندے مل گئے اب ووٹ کاحق لوٹانے کی باری ہے۔خدمت کے جذبے سے سرشار ان خدمت گاروں کی خدمت میں چند گزارشات پیش کی جارہی ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت” اور کوئی خدمت میرے لائق ”کا سوال پید انہ ہو۔سب سے پہلے تو یہ پلے باندھ لیں کہ آپ کا کام مہنگائی کو کم یا زیادہ کرنا نہیں ،گیس اور بجلی کے بل بھی آپ کی بساط سے کہیں دور ہیں اور ایسے ہی پٹرولیم مصنوعات کی گرانی یا ارزانی سے بھی آپ کا کیا لینا دینا،لہٰذا ان مسائل کو ان ہی پر چھوڑیں جو آپ سے وڈے مامے چاچے بنے ہوئے ہیں اس قوم کے،آپ بس اتنا کریں کہ گلی محلے کے مسائل پر گہری نظر رکھیں کوئی مسئلہ سر اٹھائے تو فوری طور پر اس کا تدارک کریں ،مثال کے طور پر کسی گلی محلے میں پینے کے پانی کا مسئلہ ہو تو اسے حل کرنا آپ کی ذمہ داری ہے یہ نہیں کہ ٹیوب ویل مہینوں تک خراب پڑا رہے اور مکین پانی کو ترستے ہوئے آپ کے گھروں یا حجروں کا طواف کرتے رہیں،ایسے ہی اپنے اپنے علاقوں کی صفائی بہتر بنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تاہم اس جب اغماض برت لیا جائے تو پھر یہ ایک جان لیوا مسئلہ بن جاتا ہے ،ایسے ہی دیگر چھوٹے چھوٹے گلی محلے کے مسائل حل کرنا ہی مقامی نمائندوں کا کام ہے ،اب آئیں ایک اور مسلے کی طرف۔۔جس طرح سرکار کے مختلف دفاتر اپنی اپنی وسعت کے لحاظ سے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ایسے ہی نیبر ہوڈ کونسلوں میں بیٹھے بابو حضرات نے بھی انت مچائی ہوئی ہے،برتھ سرٹیفیکیٹ ہو یا مرگی کی سند ،شادی خانہ آبادی کا پکا ثبوت حاصل کرنا ہو یا پھر جوڑے جدائی کی سند کے لئے ان سے رجوع کریں یہ بابو کسی صورت سرکار کی طرف سے مقرر کی گئی فیس پر اکتفا نہیں کر رہے ،اس میں خودساختہ اضافہ کر کے دونوں ہاتھوں سے درخواست گزاروں کو لوٹ رہے ہیں۔مقامی نمائندوں کا اگر اس لوٹ مار میں شراکت کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو اتنا کریںکہ ہر دستاویز جو ان نیبر ہوڈ کونسلوں سے جاری ہوتی ہے کہ مقررہ نرخ جلی حروف میں نیبر ہوڈ دفاتر میںنمایاں مقام پر آویزاں کریں۔یہی نہیں یہاں وصول کی گئی فیس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنے کا انتظام بھی کر نا چاہئیے جس میں درخواست گزاروں کو وصول کی گئی رقم کی رسید کا اجرا بھی شامل ہو۔یہ تو کوئی طریقہ نہیں ہوا کہ ادھر درخواست دی گئی ادھر منہ مانگی رقم مانگ کر جیب میں ڈال کر ڈکار لی گئی۔یہ بابو حضرات برتھ اور مرگی سرٹیفیکیٹ کے بھی تین سے پانچ سوروپے وصول کر رہے ہیں انہیں لگام دینا بھی بلدیاتی نمائندوں کاکام ہے کہ زیادہ تر ان بابوئوں کا شکار ان کے ووٹرز ہی ہوتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے مقامی نمائندے حلف اٹھاتے ہی ان بابوئوں کے دودھ شریک بھائی بنتے ہیں یا نہیں ،بھائی بن گئے تو ہم یہی سمجھیں گے کہ بلی کو دودھ کی رکھوالی کا کام ہم نے سونب دیا ہے یا ووٹ کے بعد نوٹ کے بھی صحیح حقدا ر ہم نے خود چن کر اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے