افغان عوام کو فوری امداد کی ضرورت ہے

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی صورتحال کا سامنا نہیںدنیا نے اقدامات نہ کیے تو یہ انسانوں کا پیدا کردہ سب سے بڑا انسانی بحران ہوگا۔ وہ افغانستان کی تشویش ناک معاشی صورتِ حال پر او آئی سی وزرائے خارجہ کے اسلام آباد میں غیرمعمولی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے ۔وزیراعظم نے ایک اہم فورم میں افغان عوام کے مشکلات کی درست نشاندہی کی ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں اس وقت بدترین انسانی بحران سر اٹھا رہا ہے ۔ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے افغانستان ایسی جگہ واقع ہے کہ موسم سرما میں ملک کے اکثر مقامات پر برفباری ہوتی ہے جس کے باعث تجارت اور دیگر معاشی سرگرمیاں جمود کا شکار ہوتی اور نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ افغانستان کے عوام موسم سرما کے دوران اپنی گزر بسر کیلئے پہلے سے بندوبست کر لیتے ہیں اور وہ اس دوران اپنی سال کی جمع پونجی خرچ کرتے ہیں۔ تاہم رواں برس موسم سرما کی آمد ایک ایسا موقع پر ہوئی ہے کہ جب ملک میں طویل خانہ جنگی کے بعد نئی حکومت قائم ہوئی ہے۔جو تہی دستی کا شکار ہے اور حکومت کے پاس عوام پر خرچ کرنے کے لئے کافی وسائل نہیں جس کے باعث افغانستان میں جاری حالات بڑے انسانی المیے کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں ایسے میں افغانستان کے اثاثوں کی بحالی و فراہمی ہی کافی نہیں اور نہ ہی اس کا انتظار کیا جا سکتا ہے بلکہ صورتحال بلاتاخیر عملی امداد کا متقاضی ہے اس مسئلے پر او آئی سی کے اجلاس کے موقع پر سعودی عرب کی جانب سے ایک ارب ریال کی امداد ناکافی ہے جملہ اسلامی ممالک کو مزید امداد اکٹھا کرنے کی سعی کرنی چاہئے۔او آئی سی کے رکن ممالک کے اجلاس میں جو چھ نکاتی حکمت عملی وضع کی گئی ہے وہ طویل المدت احسن منصوبہ ہے لیکن فی الوقت افغان عوام کو فوری مدد کی ضرورت ہے ان کی فوری مدد کرکے ہی انسانی ا لمیہ کا تدارک ہو سکتا ہے جس پر او آئی سی اور عالمی برادری فوری توجہ دے۔
بدنظمی کے واقعات کی روک تھام میں ناکامی
خیبرپختونخوامیں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوران کئی پولنگ سٹیشنوں پرشدیدبدنظمی ہوئی جس کے دوران نہ صرف انتخابی سامان کی توڑپھوڑاورجلانے کے واقعات رونما ہوئے جبکہ فائرنگ اورتشددسے انسانی جانوں کابھی نقصان ہوا اطلاعات کے مطابق کوہاٹ اور کرک اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر کئی پولنگ سٹیشنوں پر دھاندلی اور بے ضابطگیوں کی شکایت پر وقفہ وقفہ سے پولنگ بندکی جاتی رہی۔ کئی پولنگ سٹیشنوں پر امیدواروں کے حامیوں میں تلخ کلامی اور ہاتھا پائی ہوئی ۔کرک کے دیگر دور دراز علاقوں بشمول کری ڈھنڈ’ منگرخیل ‘ ترخہ کوئی سے بھی فائرنگ اور بیلٹ بکس توڑنے سمیت پرتشدد واقعات کی اطلاعات ہیں۔ سب سے زیادہ ناخوشگوار صورتحال قبائلی سب ڈویژن درہ آدم خیل میں دیکھنے میں آئی۔صوبہ بھرسے موصولہ اطلاعات کے مطابق انتخابی عمل میں حسب معمول بدنظمی اور بدانتظامی کی کیفیت برقرار رہی جبکہ سیکورٹی کے انتظامات بھی قابل تحسین نہیں تھے البتہ سوائے باجوڑ کے کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا کرک میں بھی ناخوشگوار واقعہ سامنے آیا باقی واقعات انتخابی معمول کا حصہ تھے ۔چند واقعات سے قطع نظر ماضی کی سیکورٹی انتظامات کے برعکس پولیس کی حفاظت میں انتخابات کا فیصلہ کم متنازعہ اور بہتر ثابت ہوا امیدوار اور ان کے حامی اگرتعاون کرتے تو مزید بہتری ممکن تھی۔ صوبے کے سترہ اضلاع میں ہونے والے انتخابات سے قبل اور خاص طور پر صوبائی دارالحکومت پشاور کے حوالے سے عین وقت پر بعض انتظامی فیصلوں اور عملے کی تبدیلی و بدنظمی کے واقعات اور خاص طور پر ا لیکشن کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑانے کے واقعات اور کیسز ایسے امور نہیں جس کو انتخابات کی تکمیل کے بعد نظر انداز کیا جائے ان واقعات اور اس کے پس پردہ فیصلہ سازوں اور بد انتظامی کے جان بوجھ کر مرتکبین کے خلاف الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق کارروائی میں مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہئے بدانتظامی اور ناقص انتظامات کی خود الیکشن کمیشن کی شہرت کوئی پوشیدہ امر نہیں ان انتخابات میں بھی ان کا کھل کر اعادہ نظرآیا جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اصلاح عمل اور آئندہ ایک ہی قسم کی غلطیوں کے اعادے سے بچنے کے لئے الیکشن کمیشن کے حکام کے لئے بھی خود احتسابی بہتر امر ہو گا ۔ اجتماعی طور پر انتخابی ماحول کوساز گار بنانے اور تعاون کی فضا پیدا کرنے کا جب تک ماحول پیدا نہیں ہو گا دھاندلی کی کوششوں سے اجتناب نہ کیاجائے گا اور امیدوار ووٹر حضرات ماحول کو ساز گار بنانے میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تب تک ان عوامل کے عدم اعادے کی توقع عبث ہے ۔
خصوصی افراد اور خواتین کی حق تلفی
الیکشن کمیشن اور محکمہ ابتدائی تعلیم کی جانب سے معذور افراد کوووٹ کی سہولت دینے کیلئے سکولز کی نچلی منزلوں پر پولنگ سٹیشن کے قیام کے احکامات کے باوجود پشاور سمیت کئی اضلاع کے پولنگ سٹیشن اوپری منزلوں پر قائم کئے گئے تھے جبکہ معذور افراد کے وہیل چیئر کیلئے ریمپ بھی نہیں تھا جس کی وجہ سے کافی تعداد میں معذور افراد اپنا ووٹ استعمال کرنے سے محروم رہے ہیںجو افسوسناک امر ہے المیہ یہ ہے کہ بعض افراد گھروں سے ووٹ ڈالنے کیلئے ویل چیئر پر متعلقہ پولنگ سٹیشنوں تک پہنچ گئے لیکن ریمپ نہ ہونے کی وجہ سے پولنگ بوتھ تک رسائی نہ ہوسکی۔ساتھ ہی ساتھ بہت سے علاقوں میں مختلف عوامل کے باعث خواتین انتخابی عمل میں حصہ نہ لے سکیں صوبے میں خصوصی افراد اور خواتین کے حقوق اور ان کو مقام دینے کے لئے خواہ جتنے بھی جتن کے دعوے ہوں حقیقت یہی ہے کہ ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ محولہ صورتحال کا انسانی حقوق کی تنظیموں کو نوٹس لینا چاہئے سول سوسائٹی کو بھی اس پر آواز بلند کرنی چاہئے میڈیا کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار اداکرنا چاہئے کہ معاشرے کے ان اہم ترین عناصر کوکیوں نظر انداز کیا گیا اور قانون کے مطابق ان کے لئے انتظامات کیوں نہ کئے گئے۔آئندہ جہاں وہیل چیئر اور خصوصی افراد کے لئے ووٹ ڈالنے کی باسہولت بندوبست نہ ہو وہاں عملے کو باہر آکر ان کو ووٹ کا حق دلانے کا طریقہ وضع کیا جائے جہاں خواتین کوانتخابی عمل سے روکا گیا ہے اس کا الیکشن کمیشن قوانین کے مطابق نوٹس لے۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟