”عوام کسی کے زرخرید نہیں ہوتے”

خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ وفاق اور دوصوبوں کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کے لئے زیادہ برا بھی نہیں تو زیادہ اچھا بھی نہیں رہا ۔برا اس لئے نہیں کہ ملک کی مجموعی فضا پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف بن گئی تھی ۔کچھ تو اول روز سے ہی یہ فضا بہت محنت سے بنائی گئی تھی کچھ وقت کے ساتھ حکومت کی کارکردگی بھی اس تاثر کو حقیقت بنانے کا باعث بن گئی ۔عمران خان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں بعد ہی حکومت کی ناکامی اور وزیر اعظم کی نااہلی کا منترا پڑھنے کا عمل شروع ہو گیا تھا ۔بہت سے معروف چہرے اورچینل اس طوفانی مہم کے علمبردار تھے اور اس کا مقصد پہلے دن ہی عمران خان کی ناکامی اور نااہلی اور اپنے اپنے ممدوحین کی اہلیت اور ناگزیریت کا تاثر گہرا کرنا تھا ۔تاثرکی ہوا تیز ہو تو حقیقت خس وخاشاک کی مانند بہہ جایا کرتی ہے اور یہاں بھی تاثر ایک آندھی کی طرح پھیلتا چلا گیا ۔یہ تاثر ہر حال میں پھیلنا تھا کیونکہ اسے منظم انداز میں پھیلایا جانا ہی مقصودتھا ۔عمران خان کی شیروانی کا بٹن اکھڑا ہوا تھا ،واسکٹ میں شکنیں تھیں ،سلامی لیتے وقت و ہ ہاتھ ہلا رہے تھے ،آگے جانے کی بجائے وہ قدم پیچھے ہٹ گئے ،پرسوں انہوں نے جو بات کی تھی آج اس کی نفی کر دی ۔اس طرح کے الزامات اور اعتراضات سے عمران خان کا بطور حکمران تاثر قائم کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔اس کے ساتھ حکومت کی میزان عمل بھی سج گئی جس کا تعلق حکومت کی کارکردگی سے تھا۔ ۔
کارکردگی کے محاذ پر حکومت اپنا تاثر قائم کر سکی نہ اپنی دھاک بٹھا سکی۔ایک طرف روز اول سے ناکامی اور نااہلی کا پھیلایا اور بنایا گیاتاثر ،تصوراور تصویر تو دوسری طرف حکومت نے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی بجائے دن گزارنے کی پالیسی اپنائی ۔حکمران جماعت میں دھڑے بندی نچلی سطح سے اوپر تک نمایاں ہو تی چلی گئی۔ملک گیر جماعت پیپلزپارٹی کے ملک بھر سے کمزور ہوکر ایک صوبے تک سمٹ جانے کی ایک بڑی وجہ مقامی سطح کی دھڑے بندی رہی ۔دھڑے بندی پارٹی مفاد کی حد تک رہے تو معاملہ چل جاتا ہے جب دھڑے بندی مخالف دھڑے کو گرانے اور نیچا دکھانے کے لئے کھلے مخالف کے ساتھ مل جانے کی حدوں کو چھوکر عداوت اور نفرت میں ڈھل جائے اور ڈسپلن کا پیمانہ چھلک پڑے تو سیاسی جماعتوں کے کمزور ہونے کا عمل تیز ہوجاتا ہے ۔حکومتیں قائم ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں دھڑے بندیاں عداوتوں میں ڈھلتی چلی گئیں ۔ایک جماعت وہ تھی جو عمران خان کے ساتھ گوند کی طرح چپکی رہی اور اس کے لئے پی ٹی آئی کا نام ہی کافی تھا مگر اس کے ساتھ ہی ایک بڑا طبقہ وہ سامنے آیا جو اپنا سیزن لگا کر اگلے ٹھکانوں کا متلاشی تھا۔پی ٹی آئی اس معاملے میں توازن بھی نہ رکھ سکی اور یوں پارٹی نچلی سطح پر غیر فعال ہو تی گئی۔ فقط یہ کہہ دینا کافی ہوگاکہ عمران خان اپنی فکر وفلسفے میں تنہا تھے اور تنہا ہی رہے۔ان کی اس تنہائی کا ثبوت یہ رہا کہ پانامہ ہو یاپنڈروہ لیکس ہر فہرست اس نام سے خالی رہی ۔
پنڈروہ لیکس کی آمد سے پہلے کسی بڑی شخصیت کے نام کاشور اسی امید پر ڈالاگیا تھا کہ اس میں عمران خان کا نام آئے گا مگر یہ محض ایک شرارت ہی ثابت ہوئی اور پنڈروہ لیکس بھی انہیں چھو ئے بغیر گز رگیا۔اسی طرح چینی اور گندم سیکنڈلوں کا نقش قدم بھی اعلیٰ ایوانوں تک نہ پہنچ سکا ۔بدقسمتی سے اس سے نیچے صورت حال اس کے برعکس رہی ۔حکومتوں اور تنظیم میں طاقت کی کئی مراکز جنم لیتے چلے گئے ۔خیبر پختون خواہ وہ صوبہ ہے جس نے اپنی تمام روایتوں کو جھٹک کر دوسری بار پی ٹی آئی کو اقتدار دیا ۔عوام کا یہ فیصلہ پارٹی کو دھڑوں بندیوں کی عداوتوں سے دور نہ رکھ سکا ۔مہنگائی ایک حقیقت کے طور پر سامنے آئی ۔ہر دن مہنگائی کم ہونے کی امید کے ساتھ گزار تا چلا گیا یہاں تک تین سال گزر گئے مگر مہنگائی کا گراف بڑھتا ہی چلا گیا ۔عام آدمی کی ذہنی سوچ وساخت جس قدر بلند ہو ۔اس کی نگاہ جس قدر دوربین اور قومی معاملات پرمرکوزہو مگر جب بات گھر کے چولھے کی ہوتو پھر چاند اور سورج بھی روٹیاں ہی معلوم ہوتے ہیں ۔پاکستانی عوام کی نگاہ دوربین اور بصیرت کے کیا کہنے جو دنیا میں مسلمانوں کے کسی بھی مسئلے پر اپنا وجود نوچ نوچ کر زخمی کردیتے ہیں ۔جن کے قہوہ خانوں اور ڈھابوں پر عالمی سیاست ہی زیر بحث رہتی ہے مگر اس کا کیا کیجئے کہ مہنگائی ان کے معاشی وجود کو نوچ رہی ہے ۔وہ حکومتوں کی ہر کوتاہی برداشت کر جاتے ہیں مگراس عفریت کو کیسے نظر انداز کریںجو ان کے کچن میں دندناتا ہے ۔اس کے باوجود پاکستانی عوام کا حوصلہ ہے کہ وہ کبھی مہنگائی کے نام پر مرنے مارنے پر نہیں اُترتے۔ہر دور کی مہنگائی عوام کے لئے ناقابل برداشت اور ریکارڈ توڑ رہی ہے مگر مجال ہے عوام نے کبھی سڑکوں پر نکل کر ٹائر جلائے ہوں یا توڑ پھوڑ کی ہو۔ بے چارے عوام الیکشن میں بھی غصہ نہ نکالیں تو کیا کریں ۔
مہنگائی کا غصہ عوام نے بلدیاتی انتخابات میں دکھا یا مگر اس میں ایک توازن اور اعتدال ہے حالانکہ مہنگائی میں کوئی اعتدال نہیں رہا ۔چینی اور آٹے اور گھی جیسی بنیادی ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بھی آسمانوں پر اُڑ رہی ہیںمگر اس کے باوجود پختون خواہ کے عوام نے حکومت کو ہلکا سا جھٹکا دیا ۔ابھی عام انتخابات دور ہیں حکومت کے پاس سنبھلنے اور دھڑے بندیوں کی نفرتوں پر قابو پانے کا بھی وقت ہے ۔یہ وقت گزر گیا تو پھر عوام کا فیصلہ کچھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ماؤں کی طرف سے جنے گئے انسان کسی کے باجگزار نہیں ہوتے ۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے