سرکاری سکول ‘میڈیکل اور خصوصی افراد

آج کے کالم کی ابتداء کچھ برقی وصوتی پیغامات اور کالم ہی کے بارے میں گزارشات سے کرتی ہوں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب واضح طور پر لکھا ہونے کے باوجود لوگ پوچھتے ہیںکہ یہ فلاں کا نمبر ہے میں اس پر اپنا مسئلہ بیان کر سکتا ہوں وغیرہ وغیرہ یہ نمبر مختص ہی پیغامات کے لئے ہے ہر کوئی بلاجھجھک پیغام دے سکتا ہے البتہ صوتی پیغام یعنی وائس میسج کو آئندہ صرف ان لوگوں کے لئے مخصوص کیا جاتا ہے جو لکھ نہیں سکتے یہاں اساتذہ کرام اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اتنی زحمت نہیں کرتے کہ پیغام تحریری صورت میں دیں صوتی پیغام کو بار بار سننے اور سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ جولوگ واقعی لکھ نہیں سکتے ان کے صوتی پیغامات کو ہی اہمیت دی جائے گی گزشتہ کالم میں نجی سکولوں کے اساتذہ کی فریاد خود انہی کی بیان کردہ صورت میں شامل کالم تھا اس پر ایک سرکاری سکول کے استاد محترم نے ایک مختصر پیغام جامع تصویر کے ساتھ ارسال کی ہے جس میں واضح طور پر مسئلے کی سمجھ آتی ہے اس شدید سردی میں ایک سرکاری سکول کا استاد ننگے فرش پر بیٹھے سویا سو سے زائد بچوں کو پڑھا رہا ہے ۔ ظاہر ہے اس طرح سے معیار اور پڑھائی کی صورتحال دونوں ہی ممکن نہیں اس میں سرکاری سکولوں کے اساتذہ اور طلبہ دونوں ہی کی مشکل واضح ہے تعلیم و تعلم درس وتدریس کا ماحول ہی نہ ہو تو کسی سے کوئی گلہ شکوہ کیا کرے نجی سکولوں میں ظاہر ہے اس طرح کی صورتحال نہیں ہوتی حکومت خیبر پختونخوا ہر بچہ پڑھے گا ٹھاٹ سے کے جو اشتہارات شائع کرتی رہی ہے کسی دن محکمہ تعلیم کے افسران اور حکومتی عہدیداران کسی سرکاری سکول کا چکر لگا کر دیکھیں تو سہی کہ سرکاری سکولوں میں اساتذہ اور طالب علم کس ٹھاٹ باٹ سے ہوتے ہیں یاددش بخر عزیز بھائی بتا رہے تھے کہ تحریک انصاف کے سابق دور میں جب پرویز خٹک وزیر اعلیٰ تھے اور شاہ فرمان وزیراطلاعات وزیراعظم عمران خان سے مشرق کی ٹیم کی نشست ہوئی محولہ عہدیداروں کے علاوہ بھی اس وقت کے ضلع ناظم اور بعض دیگر صوبائی وزراء بھی تشریف فرما تھے بات چلی توحکومتی کارکردگی و اقدامات کی طرف نکل گئی تنقیدی کالمز کا گلہ شکوہ سامنے آیا تو مشرق ٹیم کے ایک سینئر ممبر نے حکومتی عہدیداروں کی محفل کو بتایا کہ سرکاری سکولوں میں فرنیچر نہ ہونے کے باعث خواتین اساتذہ چارپائی گھروں سے لا کر اس پر بیٹھنے پر مجبور ہوتی ہیں جس میں چند ہی دنوں میں کھٹمل پڑ جاتے ہیں اور صورتحال نازک ہوتی ہے اب کیا صورتحال ہے اب تو ملک گیر حکومت چل رہی ہے اور اربوں روپے کے فرنیچر کی خریداری ہو رہی ہے سرکاری سکولوں کے طالب علموں کی تعداد اور ان کے زمین پر بیٹھنے کی دو تصاویر حکمرانوں اور حکام میں سے کسی نے دیکھنی ہو تو واٹس ایپ ہو سکتا ہے اس پر اس سے زیادہ کیا لکھا جائے ۔ ایک خاتون پرنسپل صاحبہ نے میڈیکل کالجوں میں نشستوں میں اضافہ کا مطالبہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ فیسوں میں بھی اضافہ کیا گیا جو نامناسب ہے بہرحال ان کا یہ موقف قابل غور ہے کہ ویسے بھی ہمارے بچے میڈیکل کی تعلیم کے لئے وسطی ایشیائی ریاستوں اور دیگر ممالک جاتے ہیں جن پر زرمبادلہ بھی خرچ ہوتا ہے اور بالاخر یہیں واپس آکر ملازمت کے لئے تگ و دو کرتے ہیں اگر یہاں میڈیکل کالجز میں نشستیں بڑھائی جائیں تو یہ مسئلہ حل ہو ۔ اصولی طورپر تو بات درست ہے موجودہ میڈیکل کالجوں میں مزید نشستوں کی شاید ہی گنجائش ہو البتہ ڈویژنز کی سطح پر میڈیکل کالجزکی دھڑا دھڑ منظوری کا سلسلہ جاری ہے میرے خیال میں اب ڈاکٹروں کی تعداد کی بجائے اب میڈیکل کی تعلیم کے معیار پر توجہ کی ضرورت ہے بیروزگار ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ کی بجائے جہاں جہاں نئے میڈیکل کالجز بن رہے ہیں وہاں سہولیات اور معیار پر توجہ دی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ ایک مفصل تحریر ایکشن کمیٹی برائے حقوق افراد باہم معذوران خیبر پختونخوا کی طرف سے موصول ہوا ہے مثل آئینہ تحریر ملاحظہ ہو۔
باہم معذوری کی مختلف تنظیموں نے نمائندوں پر مشتمل ایکشن کمیٹی برائے حقوق افراد باہم معذوری خیبر پختونخوا صوبائی حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے ڈس ایبلٹی بل میں ان کے مطالبات کی روشنی میں ترامیم کرکے اسے فوراً اسمبلی سے منظور کرایا جائے یہ بل سال 2014ء سے التواء کا شکار ہے جسے سالہا سال سے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور لاء ڈیپارٹمنٹ کے گرد گھمایا جارہا ہے حیران کن بات تو یہ ہے کہ گزشتہ سات سال میں نہ تو یہ بل اسمبلی بجھوایا جا سکا نہ ہی ان کی ضروریات اور مطالبات کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا اس بل کو ڈس ایبلٹی ایکٹ کا نام تو دیا گیا مگر اس میں افراد باہم معذوری کے لئے کچھ نہیں رکھا گیا صرف برائے نام ایک ایکٹ تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ چار فیصد کوٹہ کی بجائے اب ڈس ایبلٹی بل میں دو فیصد کوٹے کی بات کی جارہی ہے ۔ Sanctioned آسامیوں پر کوٹہ کا اطلاق کرنے کی بجائے خالی آسامیوں پراطلاق کیا جارہا ہے ایک خود مختار کمیشن کی بجائے غیرمختار کونسل کی بات دہرائی جارہی ہے ۔ مختصر یہ کہ موجودہ صورتحال میں اگر یہ ایکٹ منظور بھی کیا جائے تو اس سے افراد باہم معذوری کو کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہو گا جس کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے تمام ا فراد باہم معذوری میں غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے کیونکہ اس سلسلے میں موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں جوخاک میںملتی جارہی ہے۔ضلع ٹانک سے ملک محمد جمیل اماخیل کا شکایتی پیغام ہے کہ ان کے گائوں کوٹانک شہر میں قائم گرڈ سٹیشن ملازئی ون فیڈرسے بجلی سپلائی ہوتی ہے ملازئی ون فیڈر پر منظور شدہ لوڈ شیڈنگ سے ہٹ کر لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے اور 24گھنٹوں میں صرف چھ گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے باقی اٹھارہ گھنٹے پاور لنکس(اڈہ) ڈال کر بجلی بند کی جاتی ہے اس کے علاوہ پیسکو کے مقامی افسران نے نمبر بڑھانے کے لئے ملازئی ون کے تمام صارفین پر 9317 روپے کے نومبر کے بلوں میں حساب سے جرمانہ ڈال کر سب کو پریشان کر دیا ہے پیسکو چیف ‘ ایس ای بنوں اور دیگر حکام سے ایکشن لینے کی درخواست ہے۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے