ہم کومعلوم ہے جنت کی حقیقت ‘ لیکن

اب یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ‘ یعنی اب یار لوگ اردو محاورے کی طرح”بخیئے ادھیڑ کر سیاکریں گے” بخیہ گری ویسے بھی آسان کام نہیں ہے ‘ بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں ‘ سو جو تازہ خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق جہاں جہاں بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں وہاں اکثر علاقوں میں متحارب امیدواروں نے اپنی ہار کوقبول نہ کرتے ہوئے دوبارہ گنتی کے لئے سرگرمیاں شروع کر دی ہیں ‘دراصل ان کامقصد اور کچھ نہیں ہوتا بلکہ یہ ”کھیڈاں گے نہ کھیڈ پڑیں دیاں گے ” کے اصول کے تحت جہاں اپنی ہار کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں ‘ وہاں یہ جیتنے والوں کو چین اور سکون سے اپنی جیت کو انجوائے کرنے کی راہ میں روڑے اٹکا کر ان کی جیت کا مزہ کرکرا کرنا چاہتے ہیں ‘ ممکن ہے کچھ لوگوں کے ساتھ واقعی ”زیادتی” ہوئی ہو تاہم ہوتا یہ ہے کہ جیت اور ہار کویقینی بنانے کے لئے دوبارہ گنتی کے دوران بعض ایسے نکتے سامنے آجاتے ہیں جن کی بنیاد پرمعاملہ عدالت تک بھی پہنچ جاتا ہے اور پھر کبھی ایک کے حق میں اور کبھی دوسرے کے حق میں فیصلہ آنے سے یہ عدالتی جنگ اگلے پانچ سال تک بھی جا سکتی ہے ‘ ایسا اکثر ہوا ہے اور جب نئے بلدیاتی انتخابات قریب آتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں بہرحال اب دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے نتائج کو چیلنج کرنے کا سوچ رکھا ہے وہ کب سرگرم ہوتے ہیں اور ”میں نہ مانوں” کے بیانئے پرعمل درآمد کرتے ہوئے وکلاء کی خدمات حاصل کرتے ہیںحالانکہ ہارنے والوں کو دل سے اپنی ہار تسلیم کرکے اگلے انتخابات(بلدیاتی) کا انتظار کرنا چاہئے کہ بڑائی ‘فراخدلی سے اپنی ہار تسلیم کرنے سے بندہ سکون سے رہتا ہے ‘ اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنمائوں کی جانب سے شکست کا اعتراف اگرچہ بڑی بات ہے تاہم ان کے بیانئے مختلف ہونے کی وجہ سے ان میں جوبعد المشرقین پایا جاتا ہے وہ قابل توجہ ضرور ہے ایک نظریہ یہ ہے کہ مہنگائی مارگئی ‘ اس پر ایک بھارتی فلم روٹی کپڑا اور مکان کامشہور گیت ضرو یاد آرہا ہے جس کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ
ایک ہمیں آپ کی لڑائی مار گئی
دوسری یہ یار کی جدائی مار گئی
تیسری ہمیشہ کی تنہائی مار گئی
چوتھی یہ۔۔۔۔۔۔
باقی کچھ بچا تو مہنگائی مارگئی
اس نغمے کے چوتھے مصرعہ کو نامکمل لکھنے کا کارن بحیثیت مسلمان ہمارے لئے قابل قبول نہیں تھا اس لئے ادھورا چھوڑ دیا ‘ ہمارے بہت سے قارئین کرام کو یہ نغمہ یاد ہو گا تاہم نئی نسل کے نوجوان اسے یوٹیوب پر آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح ایک وزیر صاحب کا بیان یہ تھا کہ پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا ‘ کارکنوں کو متحرک نہیں کر سکے’ حکمت عملی تبدیل کریں گے ‘ اس بیانئے پر تو غالب سے ہی رجوع کیا جا سکتا ہے ‘ جنہوں نے کہا تھا
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت ‘لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا ‘ ایک بھونڈے مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا ‘اور جہاں تک مہنگائی سے ”مارکھانے” کی بات ہے تو ایک صوبائی وزیر کے ان الفاظ کے کھوکھلے پن کو تفنن طبع کے طور پر ایک نئے لطیفے کا باعث ضرور قرار دیا جا سکتا ہے ‘ یعنی انہیں اب بھی یہ زعم ہے کہ یہ مہنگائی کم کریں گے ‘ حالانکہ دم تحریر جو منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جارہا ہے ‘ اس سے ملک میں مہنگائی کا کیا عالم ہو گا اس حوالے سے ماہرین معاشیات بھای سے خبرداریاں دے رہے ہیں آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھی معیشت کے کیا نتائج نکلنے والے ہیں ‘ اس کے بعد مہنگائی ختم کرنے کے دعوے عوام کا کچومر نکالنے کی صورت سامنے آئیں گے ‘ ایک وزیر نے کہا ”شکر ہے کسی نے کرپشن کا ا لزام نہیں لگایا” اس پر ماشاء اللہ ‘ سبحان اللہ کی پوری تسبیح رولی جا سکتی ہے ‘ بس ان سے اتنی گزارش ہے کہ وہ وقت آنے دیں جب انشاء اللہ اس حکومت کو ”میڈیا سے تحفظ” کے خصوصی حقوق نہیں ملیں گے’ تو پھر جن منصوبوں پر ”عدالتی سٹے” بھی ختم ہوجائے گا اور اپنے مخالفین کے خلاف نیب اور دوسرے اداروں کی یلغار کی طرح انہیں بھی جوابدہ ہونا پڑے گا تو اصل حقائق مزید پوشیدہ رکھے نہیں جا سکیں گے ‘ اس کے بعد مبینہ کرپشن کا سیاہ چہرہ واضح ہو کرسامنے آجائے گا ‘ تب تک یہ جتنے مزے چاہے لوٹتے رہیں ‘ مخالفین پرالزامات لگاتے رہیں اپنے ٹرولز کے ذریعے گوئیلز کو بھی شرمندہ کرتے رہیں ‘ مگر بقول شاعر اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں ‘ بہرحال خفا نہ ہوں حزب اختلاف کی جماعتوں کے بیانئے پر قدغنیں کب تک اصل حقائق کو دبانے کے کام آئیں گے ‘ صورتحال میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو کر رہے گا اس کے بعد میر تقی میر کی طرح یہی نعرے بلند ہوں گے کہ
پگڑی اپنی سنبھالئے گا ‘ میر
اوربستی نہیں یہ ‘ دلی ہے
گزشتہ روز ایک اور خبر بھی سوشل میڈیا پروائرل ہوئی خدا جاے کہاں تک درست ہے تاہم اس کا تعلق ایک وفاقی وزیر کی اس دھمکی آمیز بیانئے سے تھا کہ اگر میرے بھائی کو ووٹ نہ دیئے تو میرا دوسرا بھائی جوصوبائی وزیر ہے ادارے کو فنڈز نہیںدے گا ‘ تو اسی ”دھمکی” پر مبنی متعلقہ صوبائی وزیر کے حوالے سے یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی کہ میں بلدیاتی اداروں کو فنڈز دینے کا پابند نہیں ہوں ‘ کیونکہ آئین مجھے اس کے لئے مجبور نہیں کر سکتا ‘ ویسے تو یہ ”اپریل فول” کی مانند کوئی”بلدیاتی فول” قسم کا مذاق ہی ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے اگر آپ کو یاد ہو تو فواد چوہدری نے بھی الیکشن کمیشن کو ای وی ایم استعمال نہ کرنے کے حوالے سے دھمکی دیتے ہوئے فنڈز فراہم کرنے سے انکار کیا تو آئینی اور قانونی حلقوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا تھا ‘ بعد میں ایک اور وزیر نے کابینہ اجلاس میں ایسے کسی فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے راہ فرار اختیار کی تھی ‘چونکہ بلدیاتی ادارے بھی آئین کے تحت کام کرتے ہیں اس لئے اگر صوبائی وزیر کی مبینہ دھمکی” درست” ہے تو آئینی ماہرین ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں ۔ کہ بقول احمد فراز
یار خوش ہیں کہ انہیں جامۂ احرام ملا
لوگ ہنستے ہیں کہ قامت سے زیادہ پہنا

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے