سیاست اور مکافات عمل

پی ٹی آئی بڑے دھڑلے اور شان کے ساتھ خیبر پختونخوا میں دوسری بار دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئی تھی ‘ پختون قوم نے عمران کے ساتھ کئی وجوہ کی بناء پر بے پناہ محبت کا اظہار کیا تھا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پختونوں کو اس کا کماحقہ ‘ صلہ نہ مل سکا اور اس کا نتیجہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سب نے دیکھ لیا۔ یہ بہت ہی عجیب بات ہے نا کہ ایک صوبہ میں گزشتہ آٹھ برسوں سے ایک پارٹی کی مقبولیت کی بلند سطح کو چھوتے ہوئے حکومت قائم رہی ہو ‘ لیکن عوامی نوعیت کے عام سے کام بھی کرنے میں ناکام رہی ہو ‘ تو اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا ہی چاہئے جیسا کہ ان انتخابات میں ہوا۔ خیبر پختونخوا کے کسی بھی بڑے شہر کی تحصیل چیئرمین ‘ میئر شپ نہ جیتنا یقینا پی ٹی آئی کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔عوام میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر یقینا بہت ساری ڈس انفارمیشن پھیلائی گئی۔ لیکن مہنگائی بہرحال ڈس انفارمیشن نہیں تھی ‘ اور اسی قسم کی خبریں اور حقائق عوام کے دلوں سے عمران خان کے ساتھ عقیدت اور چاہت میں بڑی کمی کا باعث بنیں’ اور اب جبکہ جے یو آئی پھولے نہیں سما رہی ہے ‘ آئندہ عام انتخابات پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اگرعمران خان نے ان کوتاہیوں کا تدارک نہیں کیا جن کے سبب آج ان کو پختونخوا میں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا کہ جے یو آئی پہلے نمبر پر آگئی ہے ۔
عمران خان شاید پختون قوم کا مزاج صحیح طور پر سمجھ نہیں پائے ہیں ‘ پختون کسی سے عقیدت اور محبت کرنے پرآتے ہیں ‘ توجان کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ‘ لیکن جب ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں کوپورا نہیں کیا جاتا اور ان کی انا کو ٹھیس پہنچایا جاتا ہے تو ان کو نیچا دکھانے کے لئے ہر حد سے گزر جانے سے دریغ نہیں کرتے ۔عمران خان سے عوام کی ایک اکثریت اب بھی عقیدت رکھنے کے علاوہ شاید توقعات لگائے بیٹھی ہے ‘ اور جو پارٹیاں ‘ پی ٹی آئی کے مقابلے میں اس وقت جیت گئی ہیں اس کے عواقب میںکئی عناصر و عوامل کارفرما ہیں۔ ان جماعتوں کے امیدواروں کو اپنے ورکروں اور کارکنوں کے ووٹوں کے علاوہ پی ٹی آئی کے صوبائی ”رہنمائوں” کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے کا جذبہ بھی کارفرما تھا ‘ ورنہ ابھی زیادہ مدت نہیں گزری ہے کہ ان جماعتوں کی گزشتہ کارکردگیوں اور تاریخ کے پیش نظر زیادہ پذیرائی نہیں ملی تھی۔ لیکن پی ٹی آئی کے تین ساڑھے تین برسوں میں پختونخوا میں جب کوئی بہتری نہ آئی بلکہ حالات بعض حوالوں سے پہلے سے بھی بدتر ہوئے تو عوام نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا اور جمہوریت کے حسن میں سے شاید ایک جلوہ یہی ہے کہ لوگ ووٹ کے ذریعے انتقام لیتے ہیں۔پی ٹی آئی کی اس متوقع شکست کے بارے میں ہفتہ ڈیڑھ تک تبصرے ہوں گے چینلز پر ٹاک شوز ہوںگے ‘ عمران خان ‘پختونخوا کی کور کمیٹی وغیرہ کی میٹنگ بلوائیں گے ‘ جس میں وزیر اعلیٰ ‘ گورنر اور وزراء و مشیرشرکت کرکے اگر مگر ‘ چونکہ ‘ چنانچہ کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کریں گے ‘ لیکن عمران خان سب کو سخت سست کہہ کر اسلام آباد چلے جائیں گے ‘ اگر وہ خود تشریف لا کر اس میٹنگ میں شریک ہوں گے ورنہ آن لائن سب کو جھاڑ پلا کر مستقبل کی منصوبہ بندی کا کہہ کر میٹنگ ختم کر لیں گے ۔لیکن سچ کہا ہے کسی نے کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
عمران خان نے مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے مدمقابل تیسری قوت کی ضرورت کو بخوبی پورا کیا اور بیس برس خوب محنت کی ‘ لیکن جب اقتدار ملا تو مڑ کر پارٹی کی خبر ہی نہیں لی۔ بھان متی کا کنبہ جوڑا اور پنجاب جیسے صوبے کے لئے بزدار صاحب اور پختونخوا جیسے حساس مزاج رکھنے والے صوبے کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظام کرنے میں بری طرح ناکام رہے ۔
پی ٹی آئی میں جس طرح سیٹوں کی بندربانٹ ہوتی ہے اس طرح بچوں کے ہاں کھیل کود میں بھی نہیں ہوتا ‘ زبیر علی جیسے مضبوط اور پشاور میں جدی پشتی جڑیں رکھنے اور عوامی خدمت کے حوالے سے نام ور ہونے والے امیدوار کے سامنے باہر سے امیدوار کو لا کر کھڑا کرنا جسے شاید پورے پشاور کا جغرافیہ بھی معلوم نہ ہو’ کہاں کی سیاست اور کہاں کی دانشمندی و منصوبہ بندی تھی؟۔ کرک سے شاہد خٹک کل کے ایم این اے ‘ اپنے چچا کو امیدوار اور پارٹی میں شہرت رکھنے والے سجاد بارکوال کو پس پشت ڈالنے کانتیجہ جوکچھ ہوا اس کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔آئندہ عام انتخابات میں سال ڈیڑھ ابھی ہے ‘ اور یہ مدت کسی بھی سیاسی جماعت کو مستقبل کی منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کے لئے اگرچہ بہت کم ہے لیکن اگر سنجیدگی کے ساتھ دن رات ایک کرکے کام کیا جائے تو شاید حالات سنبھل جائیں۔ بشرطیکہ صوبائی قیادت اور ضلع و تحصیل سطح پر مستحق اور مخلص کارکنوں کی بات پر کان دھرا جائے اور اس کایہی طریقہ ہے کہ عوام میں گھل مل جانا سیکھا جائے ۔عمران خان کواب اپنی چند عادات تبدیل کرنی پڑینگی ورنہ پھرسیاست کو خیبر باد کہنا ہی ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں