چیلنج ہی چیلنج

عمران خان نے خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج سے اب حقیقی اور سنجیدہ چیلنجز کی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے ۔ایک کے بعد دوسرے چیلنج کا سفر اب شروع ہوا چاہتا ہے ۔جو دن گزر گئے اسے سیاسی ڈکشنری میں ” ہنی مون پیریڈ ” کہا جاتا ہے ۔ہنسی خوشی کے تین سال پلک جھپکتے ہی گزر گئے اور اب اصل معرکہ آرائی کا موسم آرہا ہے ۔خیبر پختون خواہ میں جن غلطیوں کی نشاندہی کی جارہی ہے وہ پہلی بار نہیں ہوئیں ۔پی ٹی آئی یہ غلطیاں گلگت بلتستان سے آزادکشمیر تک کرتی چلی آئی ہے ۔خیبر پختون خوا کے انتخابات میں ہار کی اس رپورٹ سے صوبے کا نام حذف کرکے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے انتخابات کی جیت پر یہی رپورٹ سو فیصد صادق آتی ہے ۔فرق اتنا ہے کہ ان پہاڑ جیسی غلطیوں کے باوجود موافق موسموں نے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی جیت کو ممکن بنایا ۔فرق صرف یہ ہے کہ موسم کی رُت اب کچھ بدلی بدلی ہے ۔انتخابات میں روپے پیسے پسند وناپسند اور دھڑوں کی بنیاد پر ٹکٹوں حتیٰ کہ عہدوں کی تقسیم نے تحریک انصاف کو میدان سے میوزیم کی جماعت بننے کی راہ پر ڈال دیا ہے ۔یہ جو نئے موسم کی رُت ہے اب جاری رہے گی ایسے میں پی ٹی آئی کو سیاست کو قدم قدم پر آزمائش درپیش ہے ۔ابھی خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ درپیش ہے ۔مولانا فضل الرحمان لانگ مارچ اور شارٹ مارچ کی یاست بھول کر بلدیاتی انتخابات کی جیت میں مگن بھی ہوئے تب بھی حکومت کو چھوٹے چھوٹے انتخابات کے امتحان درپیش ہوتے چلے جائیں ۔جس پر منیر نیازی کا یہ شعر صادق آتا ہے
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُتر ا تو میں نے دیکھا
کے پی کے کا چیلنج ابھی جاری تھا کہ آزادکشمیر میں چیلنج نے سر اٹھالیا ہے ۔ آزادجموں وکشمیر سپریم کورٹ کے فل بینچ نے حکومت کو 2017کی مردم شماری کے تحت چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ الیکشن کمیشن جنوری 2021کے نوٹیفکیشن کے مطابق 45دن میں بلدیاتی حلقہ بندیاں کرکے عدالت کو رپورٹ کرے ۔ چھ ماہ یا کم ازکم اگست 2022تک بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنایا جائے ۔عدالت کے اس فیصلے کے بعد آزادکشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے آثارظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں ۔ اب بھی روایتی انداز سے اس خواب کے حقیقت بننے کا کوئی امکان نہیں تھا ۔عدالت نے اس معاملے میں اپنا واضح فیصلہ دے کر سیاسی ماحول کو جوہڑ سے دوبارہ آب ِرواں بننے کا ایک راستہ دکھا دیا ہے ۔1991میں یہاں آخری بلدیاتی انتخاب ہو اجو 1996تک کام کرتا رہا اس کے بعد بلدیاتی ادارے تو قائم رہے مگر ان کا انتظام کبھی بیورکریٹس اور کبھی سیاسی نامزد لوگوں کے ذریعے چلایا جانے لگا اور ان اداروں میں عوامی کی شرکت کا معاملہ کلی طور پر ختم ہو گیا ۔اس کے نتیجے میں آزادکشمیر کا جمہوری نظام کمزور بنیادوں کی حامل چھت والی عمارت کا ہو کر رہ گیا ہے۔موجود ہ حکومت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ جمہوریت کے ایک بنیادی تقاضے اور مطالبے کی تکمیل ہو گا ۔ چھبیس سال بعد نچلی سطح پر عوام کی اقتدار میں شراکت کا عمل ہو گا ۔ بلدیاتی نظام کے تعطل نے ہمارے جمہوری نظام کو جوہڑ بنا رکھ دیا ہے ۔ سیاست میں تازہ لہو اور جواں جذبوں کی شمولیت کا عمل قریب قریب ختم ہو کر رہ گیا ۔عوام سے رابطہ سیاسی کارکن کے لئے غیر ضروری عمل ہو کر رہ گیا ۔ خاندانی اور موروثی سیاست کو فروغ حاصل ہوا ۔اب تو یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ بلدیاتی نظام کو بحال اور فعال کرکے ارکان اسمبلی اور سیاسی اور جمہوری طبقہ اپنے اختیارات کی تقسیم یا منتقلی نہیں چاہتا ۔اسی لئے حیلوں بہانوں سے بلدتی انتخابات کو اکیس سال سے ٹالا جا رہا ہے ۔بلدیاتی نظام میں اختیارات ہی نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوتے بلکہ احتساب کا عمل بھی زیادہ آسانی سے جا ری رہتا ہے۔چھبیس سال پر محیط طویل تعطل کے پیش نظر یہ بہتر ہوگا کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ہی حکومت اس نظام کو آئینی تحفظ دے تاکہ پھر کوئی نسل اس نظام کے فوائد سے ناآشنا اور نابلد رہتے ہوئے عملی میدان میں قدم نہ رکھے اور سیاست میں،لمیٹڈ کمپنیوں کی طرز اور خانقاہی نظام کے انداز کا خاتمہ ہو اور معاشرے کا”ماجا گاما ” بھی اپنی صلاحیت ،تحرک اور جذبہ خدمت کی بنیاد پر اس میدان میں اپنا نام اور مقام بنا سکے ۔اب عدالت نے حکومت کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا پابند کرکے سیاسی کارکنوں اور سیاسی نظام کا ایک بنیادی مطالبہ پورا کرنے کے لئے اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے ۔عدالت کو اس فیصلے کی نگرانی اور اس پرعمل درآمد یقینی بنانے کے لئے مزید فعالیت دکھانا ہوگی وگرنہ سیاسی نظام اور سیاسی بزرجمہر ہمیشہ سے بلدیاتی نظام سے الرجک رہے ہیں اور وہ ایک بار پھر پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کرنے سے نہیں چوکیں گے۔ اس نظام سے سیاسی کلاس کے الرجک ہونے کا ثبوت طویل عرصے تک انتخابات کا التوا اور تعطل ہے۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟