بلدیاتی انتخابات سے کیا سیکھا؟

بلدیاتی انتخابات کا پہلہ مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ کہ لحاظ سے عام انتخابات کے لئے ایک وارم اپ ٹورنامنٹ تھا جس کا کپ تو جے یو آئی اڑانے میں کامیاب رہا لیکن ان انتخابات سے سیاسی جماعتوں کو کیا سیکھنا چاہئے اور خصوصاً عوام کو اس پر میڈیا میں بات نہیں ہو رہی۔ انتخابی نتائج کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا دنگل تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جمود اور فرسٹریشن کے شکار معاشرے میں ایک سرگرمی تھی اس لئے لوگوں کو انتخابی سرگرمی بھی اظہار رائے کا ایک بڑا موقعہ لگتا ہے۔ جس طرح غریب لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اپنے لئے خوشیاں ڈھونڈتے ہیں باقی پختونخوا میں تفریح کے ماحول اور مواقع کا تو آپ کو بخوبی اندازہ ہے۔ پی ٹی آئی کی شکست پر بہت بات ہو رہی ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ تاریخ میں پہلی بار نوبرس مسلسل یہ واحد جماعت ہے کہ جو اقتدار میں رہی۔ دیکھا جائے تو ان کی نو سالہ کارکردگی اور اقتدار میں رہنے کے باوجود ان کو امیدوار ملے یہ بڑی بات اور اس سے بھی بڑی بات کہ ضمانتیں ضبط نہ ہوئیں۔ کوئی اور جماعت ہوتی تو وہ شاید رضاکارانہ طور پر اپوزیشن جماعتوں سے جگہ جگہ اتحاد کرکے بس انتخابات میں حاضری لگاتی۔ انہوں نے کیا غلطی کی اس پر خود یہ مہنگائی کو قصوروار ٹھرا چکے ہیں لیکن چونکہ وزیراعظم خود ذمہ دار ہیں اس لیئے انہوں نے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم شکست کی وجہ قرار دی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے2013 کے انتخابات میں جو ”ہوائی ووٹ”لئے تھے اور جو مزید ہوا کے ساتھ بڑھ گئے بلدیاتی انتخابات میں وہ ہوا دسمبر کے مہینے میں سرد رہی۔ ہوائی ووٹ دراصل عموماً انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کا آغاز عوامی سطح پر اس بیان سے ہوتا ہے کہ اس بار فلاں جماعت کی ہوا چل رہی ہے۔اس لئے عوام اور خصوصاً سیاسی جماعتوں سے وابستہ عوام کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نظام اور نتائج پر رونے دھونے اور تنقید سے پہلے ایک ووٹر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری اور طاقت کو سمجھیں۔یقین مانئے کہ تحریک انصاف کا اصل ووٹ یہی ہے جو اس بار الیکشن میں ان کو پڑا۔ اس میں ان کی حکومتی مشینری کا ووٹ بھی شامل رہا اس لئے اگر مستقبل میں اس سے کم ووٹ ان کو پڑیں تو سمجھئے یہی ان کا اصل ووٹ بینک ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ایک ہی شخصیت کے گرد گھومنے والی پارٹی کا اتنا بھی ووٹ ہے تو یہ شاندار ہے۔ اتنی تباہی’ بربادی’ کرپشن’ بدانتظامی’ بدامنی کے باوجود بھی اگر اتنا ووٹ پڑتا ہے تو بندے میں دم ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے حوالہ سے ان کے چاہنے والے پارٹی کارکردگی سے مایوس ہیں لیکن اگر اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوگا کہ پارٹی کا ووٹ بینک وہی ہے جو تھا مطلب نہ نیچے گیا ہے نہ اوپر۔ پارٹی کا بندھا ووٹ آج بھی ان کو ہی پڑا ہے۔ البتہ پی ٹی آئی کی طرح مقامی اختلافات کی بنا پر ان کا ووٹ ان کے حق میں استعمال نہ ہو پایا لیکن وہ اتنا نہیں تھا کہ کوئی بڑا کارنامہ دکھا پاتا۔ اس لئے ان کو ان انتخابات سے سیکھنا چاہئے کہ صوبے میں وہ اپنا مستقل ووٹ بینک کس حد تک بڑھا سکتے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کی کارکردگی مایوس کن تو رہی لیکن کچھ سال پہلے تک تو یہ حالت ہو گئی تھی کہ لگتا تھا کہ پیپلزپارٹی کا نام لیوا بھی کوئی صوبے میں بچے گا۔ وہ پارٹی جو قومی جماعت تھی اور صوبے میں حکمرانی کا تخت سنبھال چکی تھی اس حالت کو پہنچ گئی تھی کہ وجود معدومی کا شکار دکھائی دیتا تھا۔ ان سے زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ تو جماعت اسلامی نے کیا۔ اس لئے اس جماعت کو آئندہ انتخابات کے لئے ابھی سے تیاریاں جاری رکھنی ہوں گی۔ جو رفتار یہ آہستہ آہستہ پکڑ چکی ہے ان میں توڑا سا خلل بھی ان کے لئے سیاسی طور پر جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن)کی کارکردگی بھی وہی رہی جتنا ان کا صوبے میں اصل ووٹ بینک ہے۔ البتہ پی ڈی ایم کی قربتوں کے باعث ان کا ووٹ بھی ہوائی ووٹ کی شکل میں جے یو آئی کو پڑا۔ اب آتے ہیں جمعیت علمائے اسلام کی طرف ان کی حکمت عملی میں ہی باقی جماعتوں کے لئے سیکھ موجود ہے۔ جمہوری نظام میں سیاست کی بنیاد دو چیزوں پر ہوتی ہے ایک Perception یعنی عوام میں فہم و ادراک یعنی عوام آپ کو اور آپ کے پلیٹ فارم کے بارے میں کیا سوچتے اور کیا مانتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جڑی ہے سیاست کی دوسری بنیاد اور وہ ہے Communication یعنی رابطہ کہ آپ عوام کو کس طریقہ اور انداز سے اپنے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ سارا عمل سر سے شروع ہوکر انتخابات کے روز انگوٹھے پر منتقل ہو جاتا ہے۔ جے یو آئی نے موجودہ حکومت کے مرکز میں آتے ہی اپنے کارکن کو مسلسل سڑکوں پر مصروف رکھا۔ ایک واضح بیانیہ لے کر قومی افق پر نمودار ہوئے۔ مدارس کی شکل میں ان کی تیار ہوتی نسل جب ووٹر بنتا ہے تو وہ ہوائی نہیں نظریاتی ہوتا ہے۔جب ان کے قائدکھلے عام نیب کو للکارتا ہے اور نیب ان کو تمام کوششوں کے باوجود چپ تک نہیں کرپائی تو کلین امیج کا مسئلہ تو قیادت کا حل ہی سمجھیں۔ پھر جے یو آئی کے پاس مطلوبہ تعداد میں صاحب ثروت حضرات بھی موجود ہیں۔ضرورت پڑنے پر وہ ہر قربانی کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ جب الیکشن کا طبل بجتا ہے تو کئی ایسی شخصیات کو میدان میں اتارا جاتا ہے جو علاقہ بھر میں فرشتہ صفت مشہور ہوتے ہیں۔ پھر ابلاغ کے لئے منبر تو موجود ہے ہی جس کے ذریعہ عوام سے براہ راست بات چیت کا جمعہ کو ہر ہفتے ایک موقعہ تو مل ہی جاتا ہے۔ ایم ایم اے کی حکمرانی میں راقم اس بات کا گواہ ہے کہ کام ہو نہ ہو جے یو آئی کے وزیراعلیٰ اور وزراء باقاعدہ عوامی دسترس میں ہوتے۔ اے این پی اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت میں البتہ امن وامان کی بدترین صورتحال کے باعث یہ ممکن ہی نہیں رہا تھا ۔ سیاست ممکنات کا نام ہے جے یو آئی کی قیادت اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اس لئے کل کیا ہو جائے ان کو کون سا راستہ ملے اور وہ کیا حکمت عملی طے کریں اس سے خوب واقف ہیں۔ اس لئے باقی سیاسی جماعتوں کو بھی ان سے سیکھنا چاہئے اس کا مطلب یہ قطعاً یہ نہیں کہ وہ ان کے ہی نظریات کو اپنائیں لیکن اپنے اپنے نظریات کو لے کر تعلیمی اداروں سے لے کر عملی میدان میں اپنے ووٹ بینک کا واضح تعین کرلیں اور اگلے انتخابات کی تیاری انتخابی نتائج کے ساتھ ہی کریں۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟