شدت پسندی سے نجات کا راستہ

ہمارے سماج کو اگر کسی چیز سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا اور مستقبل میں سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں تو وہ شدت پسندی ہے ، مختلف اقسام عقیدوں اور تعصبات سے جنم لینے والی اس شدت پسندی کی کوکھ سے جنم لینے والی عسکریت سے لگے گھائو بہت گہرے ہیں افسوس یہ ہے کہ”جو لوگ ”اسے خلاف اسلام و اتحاد سمجھتے کہتے ہیں وہی اسے پروان چڑھانے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں اس طور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب تک ہمارے (یہاں ہم سے مراد ہم سبھی ہیں )قول و فعل میں موجود تضادات کو سماج کیلئے سرطان سمجھ کر اس کا علاج تلاش نہیں کیا جاتا امن و اخوت کی مرادیں بر نہیں آئیں گی ، ایک شہری اور طالبعلم کی حیثیت سے ہمیں خوشی ہوئی کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے گھمبیر صورتحال کا احساس کرتے ہوئے متفقہ طور پر آواز اٹھائی گزشتہ دنوں منعقد ہونے والے خصوصی اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل نے ”قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے خودساختہ فیصلوں پر لوگوں کی جان لیئے جانے کو خلاف شریعت قرار دیتے ہوتے کہا ہے کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے” اصولی طور پر تو یہ بات بلکہ یوں کہہ لیجئے تجویز درست ہے مگر سوال وہی ہے وہ یہ کہ”بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون ؟”۔سانحہ سیالکوٹ کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کاکہناہے کہ”اس سانحہ کے تمام ملزمان کو قرارواقعی سزا دینے کا عمل ہی اسلامی تعلیمات کے مطابق انصاف قرار پائے گا”۔ کونسل کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تشدد اور بڑھتے ہوئے عدم برداشت کی وجہ اسلام اور نظریہ پاکستان کے خلاف شائع ہونے والا مواد ہے۔ کونسل کے اجلاس میں ارکان نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ موجودہ عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے یہ اصلاحات اس انداز میں ہونی چاہئیں کہ عوام کا نظام عدل پر اعتماد مستحکم ہو۔ کونسل کے اعلامیہ کے مطابق ارکان نے سفارش کی ہے کہ اس متفقہ اعلامیہ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ آگے بڑھنے سے قبل اگر یہاں ایک سوال پوچھ لیا جائے کہ کونسل نے اپنے قیام سے آج تک ملک میں موجود فرقہ وارانہ شدت پسندی کے خاتمے کے ضمن میں کیا کردار آدا کیا ؟ تو یہ بے موقع سوال بالکل نہیں وجہ یہی ہے کہ اس ادارے کے ارکان میں ماضی میں کالعدم تنظیموں کے فتوی باز بھی رکن رہے اور کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ حکومت نے انہیں کس خوشی اور ضرورت کے تحت اس ادارے کا رکن بنایا ؟ بہر طور اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی، خودساختہ عدالتوں اور فیصلوں کے رجحان اور انسانی جانوں سے کھیلنے کے عمل کو خلاف قانون و شریعت قرار دیئے جانے پر اتفاق رائے خوش آئند ہے البتہ مرض کی تشخیص میں کونسل کے ارکان سے سہو ہوا لگتا ہے۔ اس صورتحال اور رجحان سازی کے خلاف اگر شہری و سیاسی حلقوں سے کبھی کوئی آواز اٹھی تو اس پر مکالمے کی بجائے فتوی بازی شروع کردی گئی جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ سنجیدگی کے ساتھ یہ دیکھا جاتا کہ اپنی بات اور موقف کو حق کے طور پر پیش کرنے اور دوسروں کو صریحاً باطل قرار دے دینے کے جو نتائج سامنے آئے ان کا مداوا کیسے ہوگا؟موجودہ حالات میں یہ بھی غنیمت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے عمومی صورتحال سے متاثر ہونے اور کسی قسم کا دبائو قبول کرنے کی بجائے دو ٹوک انداز میں شدت پسندی، خودساختہ عدالتوں اور فیصلوں کو شریعت اسلامی کے خلاف قرار دیا ہے ، کونسل میں چونکہ پانچوں بڑے مسلم مکاتب فکر کے علما کے ساتھ اہل دانش کی بھی نمائندگی ہے اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کونسل کا اعلامیہ ہی پاکستان کے عوام کا مشترکہ موقف ہے۔ اصولی طور پر اب ہونا یہ چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل محض ایک اجلاس اور اعلامیہ پر اکتفا نہ کرے بلکہ آگے بڑھ کر تقسیم در تقسیم کا شکار معاشرے کو وحدت کی لڑی میں پرونے کے لئے اپنا کردار موثر انداز میں ادا کرے۔ اس کے لئے ابتدائی طور پر صوبائی اور پھر ڈویژنل اور ضلعی مقامات پر وحدت کانفرنسوں کا انعقاد اور کونسل کے پلیٹ فارم سے مکالمہ کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اگلے مرحلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان میں قائم پانچوں مسلم مکاتب فکر کے تعلیمی اداروں کے نصاب ہائے تعلیم پر اپنی آزادانہ رائے کے ساتھ سفارشات مرتب کرے اور ان اداروں کی ایسے نصاب کے لئے رہنمائی کا فرض ادا کرے جس سے وحدت، اخوت، برداشت اور ایثار کو پروان چڑھایا جا سکے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو آئمہ جمعہ و جماعت کی رہنمائی اور تربیت کا ملک گیر پروگرام بھی شروع کرنا چاہیے تاکہ محراب و منبر پر بیٹھنے والوں میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جاسکے کہ ان کا اولین فرض آقائے دو جہاں کی امت کو وحدت کی لڑی میں پرونا ہے۔ہماری دانست میں تو کونسل کو یہ سفارش بھی کرنی چاہیے کہ وطن عزیز میں دستور پاکستان میں دیئے گئے شہری’ سیاسی’معاشی اور مذہبی حقوق سے متصادم نظریہ سازی اور تنظیم سازی کی ہر خاص و عام حوصلہ شکنی کرے اور حکومت بھی اس امر کو یقینی بنائے کہ کوئی فرد یا گروہ طاقت کے بل بوتے پر دوسرے کی تکفیر نہ کرنے پائے۔ خود ہی مدعی، وکیل، گواہ اور منصف بننے کے قبیح رجحان سے پیدا ہوئے مسائل سے بنے ماحول میں اسلامی نظریاتی کونسل کا حالیہ اعلامیہ اعلائے کلمتہ الحق ہے۔ اس اعلامیہ سے ان قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جو کسی بھی معاملے میں ملکی قانون کے مطابق فیصلہ کا انتظار کرنے کی بجائے خود عدالت لگاکر بیٹھ جانے کی سوچ کی حوصلہ ا فزائی کو عین شریعت قرار دیتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت اور خصوصا وفاقی وزیر مذہبی امور اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے متفقہ اعلامیہ کو پارلیمان میں پیش کریں اور پارلیمان بھی اس کی تائید کرے تاکہ شدت پسندوں کے خلاف عوام کو متحد کیا جاسکے۔ مگر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ کونسل فقط اعلامیہ کے اجرا کو ہی کافی و شافی نہ جانے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر حکومت پر دبائو ڈالے کہ حکومت کسی گروہ کو خاطر میں لائے بغیر قانون کی بالادستی کو ہرحال میں یقینی بنائے تاکہ لوگوں کو اس شدت پسندی سے ہمیشہ کیلئے نجات مل سکے جو نفرتوں کا کاروبار کرنے والوں کا من پسند کھابا ہے کیونکہ جب تک ملکی قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوتی اصلاح احوال کے خوابوں کو تعبیر نہیں ملنی۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے