آئینی حددو کو پامال نہ کیا جائے

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں، اپوزیشن نمبر گیم کیلئے حکومتی اتحادیوں و اراکین کو اپنے ساتھ ملا رہی ہے۔ اس حوالے سے سندھ ہائوس میں تحریک انصاف کے منحرف اراکین کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہے۔ اپوزیشن اور منحرف اراکین کا مؤقف ہے کہ اراکین اپنی مرضی سے تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دے رہے ہیں، مگر حکومت کا مؤقف ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک انصاف کے اراکین کو بھاری رقم کے عوض خریدا جارہا ہے، اسی بنا پر تحریک انصاف نے وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین کو ضمیر فروش کا لقب دیا ہے۔ تحریک انصاف کراچی کے رہنمائوں اورکارکنان نے وفا داریاں تبدیل کرنے والے ارکین کے خلاف سخت ردعمل دیا اور سندھ ہائوس کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوگئے، اس موقع پر تحریک انصاف کے کارکنان نے ہاتھوں میں لوٹے اٹھائے ہوئے تھے اور وہ منحرف اراکین کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیاں نے سندھ ہائوس میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے کو آزادی اظہار اور احتجاج کے حق کے خلاف قرار دیا ہے۔ انہوں نے برملا کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ہماری کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ تمام جماعتیں آئین و قانون کے مطابق برتائو کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ارکان اسمبلی اور اداروں کو آئین کے مطابق تحفظ ملنا چاہیے۔ ہم پارلیمنٹ اور پارلیمنٹرین کا احترام کرتے ہیں مگر کسی فریق کو صورتحال خراب کرنے کیلئے عدالت کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
تحریک انصاف نے ابتدائی طور پر جارحانہ رویہ اپنانے کے بعد اب آئینی راستہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو بتایا کہ وفاقی حکومت آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف اراکین کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنا چاہتی ہے ۔آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے قانونی ماہرین کاخیال ہے کہ اس کا اطلاق منحرف اراکین کی طرف سے اقدام اٹھانے کے بعد ہو سکے گا جبکہ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ اقدام سے پہلے آرٹیکل 63 اے کا اطلاق کر کے منحرف اراکین کو روک لیا جائے۔ اس ضمن میں رہنمائی کے لیے بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ دائر کی ہے تاکہ آئین وقانون پر عمل ہو اور امن عامہ قائم رہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فریقین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر ے اور فیصلے سے قبل ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کریں جو ملک میں انارکی اور انتشار کا باعث بنتا ہو۔ اس ضمن میں جائزہ لیا جائے تو اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئینی اقدام ہے۔ آئین کا آرٹیکل 95اس اقدام کی اجازت دیتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن کو آئینی حددو میں رہ کر جواب دے۔ تحریک انصاف کے پاس منحرف اراکین کو روکنے کیلئے اب بھی تین آپشن موجود ہیں۔ ایک آپشن یہ ہے کہ منحرف اراکین کے ووٹ کی قانونی حیثیت سے متعلق سپریم کورٹ میں قانونی جنگ لڑی جائے اور تمام قانونی استثنیٰ استعمال کرتے ہوئے مزید وقت حاصل کیا جائے۔ دوسرا آپشن سپیکر قومی اسمبلی کے اختیارات کا ہے۔ اس آپشن کے تحت سپیکر اپنے مکمل اختیارات استعمال کرتے ہوئے منحرف اراکین کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکتے ہیں۔ اگر اس دوران سپیکر کے اقدامات کو چیلنج کیا جاتا ہے تو بھی التواء کی صورت میں آئینی ریلیف کی گنجائش نکل آئے گی۔ سپیکر قومی اسمبلی ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ وہ غیر معینہ مدت تک اجلاس ملتوی کرسکتے ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنا اگرچہ سپیکر کا اختیار ہے مگر اہم یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کریں گے؟دوسری طرف آئینی تقاضوں کو پورا کرنا بھی سپیکر کی ذمہ داری ہے کیونکہ اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن کے بعد آئین کے تحت سپیکر 14روز میں اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ رولز کے مطابق اسمبلی میں قرارداد پیش ہونے کے بعد تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تین دن سے قبل اور سات دن کے بعد نہیں ہو سکتی۔ سپیکر اگر اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں یا آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو انہیں اپوزیشن کی مخالفت کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 6کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آئین کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا اور سپریم کورٹ جو فیصلہ دے تمام فریقوں کی جانب سے اس کا احترام کرتے ہوئے عمل درآمد یقینی بنانا ہی مسئلے کا پرامن حل ہے۔ سیاسی جماعتوں آئین کی بالادستی کی دعویدار ہیں آج اس پر عمل کا موقع آیا ہے تو آئینی حدود کی پامالی سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  جینا محال ہے