مہنگائی سر اٹھائے تو کیا ہوتی ہے؟

یہ بوجھ اٹھانے والے جانتے ہیں
مہنگائی سر اٹھائے توکیا ہوتی ہے
مہنگائی سے کسی کو انکار نہیں اور انکار ممکن بھی نہیں مہنگائی ہی کے نعرے سے حزب اختلاف نے حکومت کے خلاف تحریک کی ابتداء کی اور بات تحریک عدم اعتماد تک پہنچ گئی مہنگائی سے کون تنگ نہیں گھریلو خواتین سب سے زیادہ پریشانی کا شکار ہیں کچن کے اخراجات دوگنا بلکہ تین چار گنا ہوگئے ہیں خوراک کے معیار پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑ رہا ہے پہلے کی طرح اب باورچی خانے کا سامان نہیں آتا اور نہ ہی ایسا ممکن رہا کھینچ تان کر گزارہ کرتے کرتے اب مزید مشکل ہور ہی ہے یہ کہانی نہیں اور نہ ہی تبصرہ و کالم بلکہ ایک خاتون خانہ کا واویلا ہے دھائی ہے کہ مار گئی مہنگائی مگر فریاد کوئی کرے تو کس سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ نام کی کوئی چیز یا تو ہے ہی نہیں اور کہیں ہے تو وہ صرف کاغذوں پر جس کا بس نہیں چلتا چیف سیکرٹری اور کمشنر کی سطح پر اگر اجلاس ہو اور اقدامات پر عملدرآد نہ کروا سکیں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نوٹس لیتے اور ہدایات جاری کرتے رہیں دعوے ہوتے رہیں اور عملدرآمد نہ ہو تو اسے شہرناپرسان نہ گردانا جانے تو کیا کہا جائے ۔ حیات آباد فیز چھ سے ایک خاتون نے محولہ خیالات کے اظہار کے ساتھ نواب مارکیٹ کے حوالے سے پوری تفصیل کے ساتھ برقی پیغام دیا ہے ان کے مطابق نواب مارکیٹ میں کوئی بھی دکاندار نرخنامے کی پابندی نہیں کرتا نرخنامہ کا سوال کرنے پر تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے رسمی طور پر بھی کسی دکان پر سرکاری نرخنامے آویزاں نہیں اس کی پابندی اور اس کے مطابق خرید و فروخت تو دوراز کا ر ہے ۔نواب مارکیٹ فیز چھ میں دودھ فروش ایک سو ساٹھ روپے کلو دودھ دہی بیچتا ہے دودھ کا معیار بھی اچھا نہیں معلوم ہوتا نہ انتظامیہ کے کسی فرد کو کبھی توفیق ہوئی ہے کہ آکر پوچھے آنے کا تکلف بھی کریں تو جرمانہ کیا جاتا ہے جو دودھ فروش کی جیب سے نہیں ہماری ہی جیب سے جاتا ہے روزانہ کی بنیاد پر جو رقم کمائی جاتی ہے اگر مہینے میں ایک بار جرمانہ دے کر جان چھڑائی جائے تو کسی کا کیا گیا۔ اسی طرح کبھی حلال فوڈ اتھارٹی والے بھی کبھی آکر ملاوٹ پر دکان سیل نہیں کرتے بس رسمی کارروائی ہوتی ہو گی اسی طرح تندور والے بھی مختلف نہیں تینوں کے تینوں تندوروں پر صفائی اور نرخنامے کا کوئی تصور نہیں روغنی روٹی بیس اور ڈبل روٹی تیس اور چالیس روپے کی بھی فروخت ہوتی ہے مگر کبھی بھی دکان سیل کرنے کی کوئی مثال نہیں تندوروں پر چرس پی کر ایسے بیٹھے ہوتے ہیں کہ چہرے اور آنکھوں پر اس کے اثرات واضح نظر آتے ہیں کبھی کبھار تو تندور پر بیٹھ کر سگریٹ بھرتے اور کش لگاتے نظر آتے ہیں چرسیوں کے کوئی منہ کیسے لگے ۔ ہر دکان اور دکاندار کی اپنی کہانی ہے قدر مشترک گرانفروشی ہے دکانوں کے سامنے سرکاری جگہ ان دکانداروں نے کرائے پر دے ر کھا ہے برآمدے پرتو دکاندارخود قابض ہیں اور پارکنگ ایریا مختلف لوگوں کو کرایہ پر دے دیا گیا ہے پی ڈی اے کاعملہ کبھی کبھارپیشگی اطلاع دے کر آتا ہے تو تھوڑی دیر ہلچل مچتی ہے اور پھر تھوڑی دیر میں تجاوزات پھر سے قائم ہوتے ہیں اگر ایسا ہی کرنا ہے تو پھر پی ڈی اے خود ہی تہہ بازاری کی اجازت دے اور تہہ بازاری کا الگ اکائونٹ کھول کر کچھ حصہ عوامی فلاح پر خرچ کرے مسجد ابوذر غفاری کے سامنے جو اتوار بازار لگتا ہے سوزوکی ‘ تین پہیہ گاڑی والے آواز لگانے کے لئے باقاعدہ ملازم رکھے ہوتے ہیں جن کی آوازوں سے نمازی تلملا جاتے ہیں لیکن شکایت کریں تو کس سے نہ مقامی پولیس نہ پولیس کی گشتی گاڑی اور نہ ہی پی ڈی اے کا سکواڈ کسی کو بھی پرواہ نہیں اور پروا ہ ہو گی بھی کیوں ان کو برابر کا حصہ جو ملتا ہے ۔ سبزی فروٹ و بھتہ سبھی کچھ جانے نجانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے ۔گھریلو خاتون نے ایک دن کا نہیں پندرہ سالوں کے مشاہدے اور تجربات کا نچوڑ بیان کیا ہے جسے پڑھ کر کم از کم مجھے تو اس جدید بستی کے سب سے پرہجوم مارکیٹ کے شہر ناپرسان ہونے پر یقین آگیا کہنے کو توکنزیومرز کے حقوق کے حوالے سے بھی سرکاری انتظام موجود ہے ضلعی انتظامیہ اور نجانے کیا کیا اور کتنے محکمے ہیں مگر افسوس سب کے سب عضو معطل ۔ عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں الٹا سرکاری محکمے پر بوجھ بڑھتا ہے ایک مارکیٹ کے حوالے سے پوری تفصیل سے مسائل کی نشاندہی کے بعد اب یہ پوری حکومت کا امتحان ہے کہ وہ اس حوالے سے کس حد تک نظر آنے والے اور موثر اقدامات کرتی ہے ۔ میں تو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان ‘ چیف سیکرٹری اور کمشنر پشاور ہی سے اس طرف متوجہ ہونے کو ہی اس خاتون کے بیان کردہ صورتحال کا حل سمجھتی ہوں کبھی تو سارے محکمے ایک ٹیم کی طرح کسی مارکیٹ جا کر نرخ’ ملاوٹ ‘ معیار’ صفائی اور دکانداروں کی دیدہ دلیری کا معائنہ کرکے موقع پر سخت اقدامات اور سخت سے سخت قوانین اور دفعات لگانے کا مظاہرہ تو کریں حکومت کی عملداری کیا ہوتی ہے اور اس کا مذاق اڑانے والوں سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے کم از کم ایک بار ایسا کرکے تو دکھایا جائے عوام کو بتایا جائے کہ قوت نافذہ نہ صرف حرکت میں آگئی ہے بلکہ پوری طرح سے قوانین کا نفاذ بھی کرکے پورے صوبے کے لئے مثال بھی قائم کر دی ہے ۔ وزیر ا علیٰ خیبر پختونخوا رمضان المبارک سے قبل صرف اپنے صوبے میں نہیں بلکہ دیگر صوبوں کے لئے بھی قابل مثال اور قابل تقلید اقدامات کروا سکیں تو کوئی خاتون اس طرح کی فریاد پر کیوں مجبور ہوگی ہے کوئی فریاد سننے والا یا سب بہرے ہیں؟
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے