عمران خان کا آخری خطاب

گذشتہ رات قوم سے ہونے والے خطاب کو عمران خان کا آخری خطاب ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ انکی زبان، لہجہ اور الفاظ اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ اب وہ جانے والے ہیں اور شاید اِن سطور کی اشاعت تک انکی وزارت عظمیٰ کا قصہ ہی تمام ہو چکا ہو۔ اس لئے انہوں نے اپنے آخری خطاب میں ایک بار پھر اپنے خلاف عالمی سازش کا ڈھنڈورا پیٹ کر قوم کی ہمدردی سمیٹنے کی بھر پور کوشش کی اور اپوزیشن کو میر جعفر اور میر صادق کے لقب سے نوازتے ہوئے اپنے آپ کو ٹیپو سلطان ثابت کرنے کی کوشش کی۔مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ عمران اِ س وقت خود کو ایک بہت بڑا عالمی رہنما سمجھتے ہیں اور انکا خیال ہے کہ اپوزیشن کے یہ کیڑے مکوڑے مجھے عالمی منظر سے ہٹانا چاہتے ہیں۔لیکن انہوں نے اپنی اس تقریر میں بھی عالمی سازش کی بنیاد اُ س خط کو بنایا جسکا ذکر انہوں نے 27مارچ کو اسلام آباد کے جلسۂ عام میں کیا تھا۔اِ س بار تو انہوں نے امریکہ کا نام بھی لے لیا کہ ہمیں خط لکھنے والا امریکہ تھا۔اگرچہ امریکی محکمہ خارجہ نے اِس تقریر کے فوراً بعد اِس خط کی تردید کی ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی مگر اسکے باوجود عمران خان اور اسکے وزراء یہ بیانیہ بنانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ انکی حکومت کو رخصت کرنے میں امریکہ اور یورپی یونین ملوث ہے کیونکہ عمران خان اور اسکے حواریوں کو پتہ ہے کہ پاکستان میں ہیرو بننے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے امریکی مخالفت اور دوسرا مذہبی کارڈ کا استعمال چونکہ بھٹو کی مثال انکے سامنے ہے کہ اسکے دور میں بھی جب پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی اور اسکے اقتدار کی کشتی ہچکولے کھانے لگی تو اس نے بھی مذہبی کارڈ کھیلتے ہوئے جمعہ کی چھٹی بحال کر دی اور راولپنڈی کے راجہ بازارکے ایک ہجوم کے سامنے امریکہ کا ایک خط بھی لہرا دیا کہ امریکہ مجھے فارغ کرنے کی سازش کر رہا ہے۔سو عمران خان بھی وہی حربہ آزما رہے ہیں مگر خارجی معاملات پر نظر رکھنے والے مبصرین اس بات پر حیران ہیں کہ چلو بھٹو نے تو ایٹم بم بنانے کا ببانگِ دہل اعلان کیا تھا اور امریکی مخالفت کے باوجود اس نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں شاہ فیصل جیسی عالمی شخصیت نے شرکت کی مگر عمران خان نے ایسا کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے یا ایسی کونسی امریکی مخالفت کی ہے جس سے امریکہ اور یورپ ناراض ہو جائے۔اگرچہ عمران خان اسکی وجہ دورہ روس اور ایبسلوٹلی ناٹ قرار دے رہے ہیں مگر عالمی مبصرین اسے اسکی اپنی اختراع بتاتے ہیں اور اِ س حقیقت کو ماننے کو تیار نہیں کیونکہ انکے خیال میں اگر اس بات میں صداقت ہوتی تو روس کا پہلا سرکاری دورہ تو 2014میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے کیا تھا اور اسکے بعد آرمی چیف بھی روس کے دورے پر گئے تھے جبکہ کراچی سے قصور تک گیس پائپ لائن کا معاہدہ نواز شریف کے دور میں طے پایا تھا ۔اسی طرح چین کے ساتھ سی پیک کا معاہدہ بھی آصف علی زرداری نے کیا تھا اور نواز شریف کے دور میں یہ شروع ہوا پھر اگر امریکہ ناراض ہوتا تو سب سے پہلے آصف علی زرداری سے ناراض ہوتا یا پھر نواز شریف سے ناراض ہوتا۔جبکہ عمران خان نے تو سی پیک کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسکے پورے دور میں سی پیک کا اجلاس تک نہیں ہوا ۔انکے خیال میں عمران خان نے چین کو ناراض کر کے امریکہ کی بالواسطہ مدد کی ہے۔ایک تھیوری یہ بھی پائی جاتی ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عد اعتماد لانے کا فیصلہ جنوری میں ہی طے ہو گیا تھا اور میڈیا میں بھی اسکی خبریں چل چکی تھیں لیکن عمران خان نے محض بیانیہ بنانے کے چکر میں فروری کے آخر میںروس کا دورہ کیا جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُ س نے یہ دورہ عسکری حکام کی مشاورت سے کیا تھا اگر امریکہ ناراض ہوتا تو عسکری حکام سے ناراض ہوتا جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اصل ذمہ دار ہیں۔جہاں تک خط کا معاملہ ہے تو امریکی تردید کے بعداسکی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے۔ویسے بھی وکی لیکس کے طشت از بام ہو جانے کے بعد امریکہ اتنا بے وقوف نہیں کہ وہ ایسے معاملات تحریروں کے ذریعے اٹھائے۔سیاسی مبصرین سچ کہہ رہے ہیں کہ لیٹر گیٹ اسکینڈل عمران خان کے گلے پڑ جائے گا اور سیاسی فائدے کی بجائے الٹا اسے نقصان ہو گا۔

مزید پڑھیں:  کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری