کیا سے کیا ہوگیا دیکھتے دیکھتے

(گزشتہ سے پیوستہ)
امریکہ سمیت عالمی برادری کے دوسرے ممالک کو اقوام کے حق خودمختاری اور دیگر امور کے حوالے سے اقوام متحدہ کے متفقہ چارٹر سے انحراف کی روش ترک کرنا ہوگی اور یہ بھی سمجھنا ہوگاکہ ترقی پذیر اقوام ان کی جیب کی گھڑی ہرگز نہیں۔ مکرر اس ضمن میں دوباتیں عرض کرنا بے حد ضروری ہیں ایک تو یہ کے ایسی سفارتی کیبلز معمول کا حصہ ہیں دوسری بات یہ ہے کہ سفارتی کیبلز کے متن کو اپنی سیاست کا رزق بنانے کی سوچ اور عمل درست نہیں یہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ وزیراعظم27مارچ کی شام سے اس سفارتی کیبل کو دھمکی آمیز خط بیرونی سازش اور اپوزیشن کو غیر ملکی فنڈنگ کے اپنے الزام سے ملا کر پیش کررہے ہیں لیکن اس پر انہوں نے کمیٹی کے اجلاس میں بات نہیں کی کیوں ؟ اس سوال کا جواب تو خود ان کے پاس ہی ہے ۔ہم عرض کریں گے حب الوطنی مشکوک ٹھہرے گی آجکل ویسے بھی حب الوطنی کا سیلاب آیا ہوا ہے ، جہاں تک قوم سے خطاب میں وزیراعظم کے خیالات اور اپوزیشن پر لگائے گئے سنگین الزامات کا تعلق ہے تو بیرونی سازش اور فنڈنگ میں اپوزیشن کے کردار پر اگر وزیراعظم کا الزام درست ہے تو قومی سلامتی کمیٹی میں بات کی جانی چاہیے تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی میں سفارتی مراسلہ پر غور وفکر کے دوران اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش اور فنڈنگ کے الزامات کے ثبوت پیش نہ کرکے انہوں نے اس موقف کو تقویت دی ہے کہ یہ دونوں الزامات سیاسی کھیل کا حصہ ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس طرح کی الزام تراشی ایک عام سی بات ہے۔ اس امر پر کبھی کسی نے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ بلاثبوت لگائے جانے والے سنگین الزامات بالخصوص مخالفین کو غداری کا مرتکب قرار دینے سے سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے درمیان موجود اختلافات شدت پسندی میں تبدیل ہوتے ہیں اور اس سے سیاسی عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔ اپنی سیاست اور فہم ہر دو کا وزیراعظم کو ڈٹ کر دفاع کرنے کا جمہوری حق ہے وہ ملک کے منتخب وزیراعظم ہیں اسی طرح انہیں اپنے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کا بھی جمہوری انداز میں سامناکرنا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ہمدردوں کو بطور خاص اس امر کو مدنظر رکھناچاہیے کہ سیاسی اختلاف معرکہ کفرواسلام ہوتے ہیں نہ یہ ا ختلافات حب الوطنی اور غداری کے پیمانے۔ سیاسی اختلاف جماعتوں کے انتخابی منشور اور طرزحکمرانی پر ہوتے ہیں یہی جمہوریت کا اصل حسن ہے۔ گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی میں زیربحث آنے والے سفارتی مراسلے کے حوالے سے یہ سوال اہم ہے کہ اگر یہ سفارتی مراسلہ 7یا 8مارچ کو موصول ہوگیا تھا تو وزیراعظم نے اس کا ذکر کرنے کے لئے 27مارچ کی شام تک انتظار کیوں کیا۔ انہوں نے 8سے 27مارچ کے درمیانی عرصہ میں قومی سلامتی کمیٹی کااجلاس طلب کرنے کی ضرورت کو نظرانداز کیوں کیا؟ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ اپوزیشن سمیت بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپوزیشن کے خلاف بیرونی سازش کا حصہ بننے کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا گیا۔ اگر اپوزیشن واقعی کسی بیرونی سازش
میں ملوث تھی تو 9مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کااجلاس بلاکر سفارتی مراسلہ کے ساتھ دیگر ثبوت بھی کمیٹی کے سامنے رکھے جاتے۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ اب جبکہ متعلقہ ملک سے سفارتی سطح پر احتجاج کرلیا گیا ہے تو سفارتی مراسلے اور وزیراعظم کے اپوزیشن پر لگائے جانے والے الزامات کو گڈمڈ کرکے ایسا بیانیہ تشکیل نہ دیا جائے جس سے نظام اور سیاسی عمل کے لئے خطرات پیدا ہوں یا سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو امید ہے کہ اس امر کو بہرصورت مدنظر رکھا جائے گا ، اب آئیے کالم کے آغاز پر وزیر اعظم کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بقول ان کے تین آپشنز دیئے جانے پر مختصرا دوبارہ بات کرلیتے ہیں یہ عرض کرچکا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع اس کی تردید کررہے ہیں بلکہ ان کا موقف ہے کہ وزیراعظم یہ چاہتے تھے کہ اپوزیشن سے بات کرکے درمیانی راستہ نکلوانے میں مدد دی جائے ۔ سوال یہ ہے کہ جوبات عالمی سازش سے شروع ہوئی سفارتی کیبل کو دھمکی آمیز خط بناکر اس میں رنگ بھرا گیا اس میں اسٹیبلشمنٹ کہاں سے آگئی ؟ بہت احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا پڑرہا ہے کہ ناتجربہ کاری اور سوچے سمجھے بغیر بات کہہ دینے کی عادت نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں انہوں نے ملک کے لئے مسائل تو پیدا کیئے ہی خود اپنی بچی کھچی ساکھ بھی داو پر لگادی ، حاصل وصول کیا ہوگا یہ الگ سوال ہے بنیادی بات یہ ہے کہ اس ساری کھیل کی ضرورت کیا تھی ؟

مزید پڑھیں:  غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت