کرکٹ یا تماشہ؟

وقت بھی عجیب کھیل ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا زندگی ایک ڈرامہ ہے اور ہم اداکار، جو اپنے اپنے وقت پر کردار اور ڈائیلاگ کی ادائیگی کے لیئے سٹیج پر آتے ہیں اور اپنا کردار ادا کرکے چلے جاتے ہیں۔ 1992ء کے ورلڈکپ کے بعد اس قوم کو ”کرکٹ” کا بخار ایسے چڑھا کہ چند دہائیوں کے بعد اسی ورلڈکپ کے کپتان عمران خان کو وزارت عظمیٰ پر فائز کردیا۔ چاہے لاکھ سلیکٹڈ کہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ عوام میں اس کی مقبولیت رہی۔ ان چند دہائیوں میں ایسے لگا کہ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی کبھی اس ملک میں کھیلا بھی گیا یا نہیں۔ سکواش تک کو ہم بھول گئے، سنوکر میں حال ہی میں جھنڈے گاڑنے کے باوجود ہم نے اس کھیل کو پذیرائی سے محروم رکھا۔ کھیل اور ہمارے معاشرے کا تعلق اتنا گہرا رہا ہے کہ ہمارے نامور شاعر افتخار عارف نے تو بارہواں کھلاڑی پر نظم تک لکھ ڈالی جو موقعہ کی مناسبت سے اس وقت بھی ٹھیک بیٹھتی ہے۔
لو جی وہ وقت بھی آ گیا۔ اب جا کہ معلوم ہو رہا ہے کہ کھیل میں کبھی کبھی بارہواں کھلاڑی بھی ہوتا ہے جو اپنی باری کا انتظار کرتا ہے۔ وہ ایسے کسی حادثہ کا انتظار کرتا ہے کہ اسے موقعہ ملے اور پھر اسے موقعہ مل بھی جاتا ہے۔ ہم بات کر رہے تھے کھیل کی کہ کیسے کرکٹ کس حد تک باقی کھیلوں حاوی ہو چکا ہے۔ کیا سیاست، کیا صحافت، کیابازار، کیا رشتے ہر جگہ کرکٹ کی اصطلاحات منوں کے حساب سے استعمال ہوئیں۔ کپتان،امپائر، وکٹ، سپر اوور، کریز، تماشائی، نوبال، چھکا، چوکا، ایکسٹرا اوور، لاسٹ بال وغیرہ وغیرہ۔ پتا نہیں کس وقت ہم نے اس ریاست کو بھی کرکٹ کی طرح چلانا شروع کیا اور ریاست انجانے میں ”ٹوئنٹی ٹوئنٹی” فارمیٹ پر آگئی۔ آج دنیا میں ہمیں ایک ریاست ایک ملک نہیں ایک سٹیڈیم کی طرح دیکھ رہی ہے اور تماشہ بن چکے ہیں۔ لیڈرشپ نہیں رہی سٹارڈم آ چکی ہے ،یہ قوم اب قوم نہیں رہی فین کلب بن چکی ہے۔ اب اس ملک میں کام نہیں ہوتا سکور ہوتا ہے۔ عجب طرفہ تماشہ ہے۔ جس کام پر تالیاں اور سیٹیاں بجیں، وہی کام دہرایا جاتا ہے چاہے وہ گالی ہی کیوں نہ ہوں۔ قوم کرکٹ کی طرح سوچنے لگی ہے۔ لیکن ذرا سوچئے صرف تین مہینے کے لئے حکومت سے بیساکھیاں ہٹا دی گئیں اور حشر آپ نے دیکھ لیا۔ سارا کام ٹھپ، حکمران جماعت اپنے ہی پارلیمنٹ کے اندر اپنے ہی ملک کے قائدین کے ساتھ بات تک کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے کیونکہ کرکٹ میں مخالف ٹیموں کے بیچ میں مذاکرات نہیں ہوتے بلکہ آخری بال تک لڑائی ہوتی ہے۔ ذرا سوچیں کہ اقتدار سے آخری وقت تک چمٹے رہنے کو بھی کرکٹ کی اصطلاح سے تعبیر کیا گیا۔ اگر یہ سیاست ہوتی تو کم ازکم ایک سال تو نکال پاتی۔ یہ چھوڑیں خارجہ پالیسی تک کو بھی کرکٹ کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ پی ایس ایل میچوں کی طرح روس اور چین کے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔فین کلب کا یہ عالم تھا کہ مہنگائی کے حق میں آوازیں اٹھیں۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے۔ عوام اس حد تک انتہاپسند فین بن گئے ہیں کہ اپنی اپنی لیڈر شپ میں خامی کا تصور بھی نہیں رہا۔ پوری سرکار اور سیاست سوشل میڈیا پر ہی چلتی رہی۔ ظاہری بات ہے کہ جب وزیراعظم خود کو کپتان کہے اور سمجھے تو کپتان تو سلیکٹڈ ہی ہوتا ہے اس کا عوام سے کیا لینا دینا اور وہ ٹھیک سمجھتا ہے کہ اسے ٹماٹر کی قیمتوں سے کیا لینا دینا، وہ تو ملک چلانے کے لیئے نہیں میچ کھیلنے کے لیئے آیا تھا۔ اس پر بھی عوام تالیاں بجائیں کیا کہنا اس قوم کا پھر ہم اسے قوم نہیں فین کلب کہیں تو بجا نہیں کہتے؟
اب کریں کیا؟ سوال یہ اہم ہے۔ سب سے پہلے تو اداروں کو اس ملک کو سٹیڈیم کی حالت سے نکالنا ہوگا۔ ماننا ہوگا کہ یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا۔ پھر تمام سیاسی قائدین کو یہ سوچنا ہوگا کہ ریاستی اور عوامی پالیسیز کو کس طرح محض ایک کھیل والی حالت سے نکالا جا سکتا ہے۔ پھر ایک بھرپور مہم چلائی جانی چاہیے ،سکولوں اور کالجوں سے لے کر یونیورسٹیز تک یہاں تک کہ اداروں کے اندر بھی کہ یہ سب کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ اس کے نقصانات کیا نکلے؟ اداروں کی بحالی اب کیسے ہو سکتی ہے۔ سیاست کے تازہ خون اور سوچ کے لیئے درسگاہوں میں یونینز پر سے پابندی ہٹانی ہوگی۔ مستقبل کا جو اجتماعی ذہنی نقصان ہو چکا ہے اس کے لیئے ایک بھرپور آپریشن کی ضرورت ہے جو کہ اداروں اور عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ عدالت میں ثبوتوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ سب سٹارڈم تھا اس کا سیاست اور جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عوام کو فین کلب والی حالت سے میڈیا کے ذریعہ نکالا جائے۔ اداروں کی بے توقیری کا سدباب کیا جائے۔ چلیں اس تحریر کا اختتام بھی محترم افتخارعارف کی نظم پر کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تماشہ جب ختم ہوتا ہے تب کچھ کرنے کے کام بھی ہوتے ہیں۔
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا
چراغ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
زمیں جب عدل سے بھر جائے گی نور علیٰ نور
بنام مسلک و مذہب تماشا ختم ہوگا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
دل نا مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا
جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا

مزید پڑھیں:  سرکاری ریسٹ ہائوسز میں مفت رہائش