آمد رمضان اور روزے کے تقاضے

اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی حکم انسان اور انسانیت کی بھلائی سے خالی نہیں ہوتا۔چاہے عبادات ہوں یاسماجیات تمام احکامات میں انسان کی ہی بھلائی مضمر ہوتی ہے۔اللہ توچاہتا ہی یہی ہے کہ اس کے بندے اس کی زمین پر امن وسکون کے ساتھ رہیں ۔ یہی انسان کی بندگی کا حق ہے جو اس نے پورا کرنا ہوتا ہے ۔اسلام کی تمام تر عبادات کامطالعہ ثابت کرتا ہے کہ ان عبادات میں انسان کو انسان کے قریب ترلانا مقصود ہے۔دین انسان کودوسرے انسان کے دکھ درد کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ باجماعت نماز پڑھنا ،حج کرنااور زکواةدینا بنیادی طور پر انسان کو دوسرے انسانوں کو سمجھنے اور احساس کرنے کا ایک موقع فراہم کرنا ہی تو ہے ۔باہر بھی ماحول ایسا ہوتا ہے کہ داخل سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ذکر اذکار،تلاوت کلام پاک،زکوٰة و خیرات،نوافل و فرائض بڑی سہولت کے ساتھ ادا ہوجاتے ہیں یہی اس مہینے کی برکت ہے۔روزے کا سب سے اہم فیض نفس پر قابوپانا ہے۔پندرہ سولہ گھنٹوںکی بھوک پیاس برداشت کرنا نفس کے بے قابو گھوڑے کو لگام دینے کے لیے ہی تو ہے۔مگر افسوس ہم اس فلسفے کو سمجھ نہیں پاتے ۔کوئی دن ہی ہوگا کہ جب ہم بازاروں میں روزہ داروں کو جھگڑتے نہ دیکھتے ہوں۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر درگزر کرنے کی بجائے مشت وگریبان ہوجاتے ہیں۔گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔مڈل کلاس کے لوگ کریں بھی تو کیا ؟ ہر کوئی چاہتا ہے کہ افطار کے وقت وہ اپنے اہل خانہ کے لیے دستر خوان کو اللہ کی نعمتوں سے بھر دے۔مگر مہنگائی اللہ کی پناہ۔رمضان میں تو مہنگائی کا عالم ہی کچھ اور ہوتا ہے۔قوت خرید کی کمی سے کم مائیگی کااحساس جنم لیتا ہے ،یہی احساس اناؤں کو مجروح کرتا ہے اور پھر ہم لڑنا جھگڑنا شروع کردیتے ہیں۔حالانکہ روزہ صرف بھوک پیاس کو سہارنا نہیں بلکہ دیگر چیزوں کی برداشت کا تقاضا بھی کرتا ہے۔مڈل کلاس کا مسلہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے سے اوپر والوں کو دیکھتا ہے اور ان کے لائف اسٹائل کو پھلانگنے کو کوشش کرتا ہے جبکہ اسے اپنے سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے والے نظر نہیں آتے کہ ان کی کیا حالت ہے۔ماںکہتی تھیں کہ اپنے سے اوپر مت دیکھو،بے سکون ہوجاؤگے،خود سے نیچے دیکھو گے تو راضی ہوجاؤگے۔یہاں مغرب کی مثال دینا مناسب نہیں کہ وہاں مذہبی تہواروں میں عوام کو سبسڈی دی جاتی ہے۔لوگ پورے سال کی خریداری انہی تہواروں میں کرڈالتے ہیں ۔ہماری حکومتیں بے شک اتنی مالدار نہیں کہ مغربی ممالک کی طرح ایسٹر یا کرسمس کی طرز پر رمضان میںعوام کو اشیاء پر سبسڈی دے سکیں لیکن کم از کم حکومتیں ظالمانہ منافع خوری پر تو نظر رکھ سکتی ہیں، اس کام کے لیے ادارے موجود ہیںجو ماضی میں اپنا کام کرتے تھے لیکن اب ان اداروں کو قولنج سا ہوگیا ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں کہ رمضان کے آتے ہی اچانک اشیاء کیوں مہنگی ہوجاتی ہیں۔دکانداروں کو بھی خدا کا خوف نہیں رہا ۔وہ رمضان کو کمائی کا ”سیزن ”کہتے ہیں۔یہ سیزن روزہ داروں کے خون سے کمائی کرنے کا سیزن ہے۔ہم مادہ پرستی کی اس انتہا کو پہنچ گئے ہیں کہ خود روزہ رکھ کر بھی روزہ داروں پر ہمیں رحم نہیں آتا۔مگرہم تو ایک عجیب وغریب قسم کی موقع پرستی کے عادی ہوگئے ہیں۔صارف کی مجبوری کو بھانپتے ہی اس کی جیب سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کہ رزق تو اللہ ہی نے ہمارا مقرر کررکھا ہے توپھرحرص اور لالچ کیوں۔ہم لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کا ذمہ دار حکمرانوں کو قرار دیتے ہیں لیکن خود ہم کیا کررہے ہیں وہ ہمیں یا تو جائز نظر آتا ہے یا پھر دیکھ نہیں سکتے ۔موقع پرستی کے جراثیم ہم میں کچھ زیادہ ہی سرایت کرچکے ہیں۔بارش ہوجائے تو رکشہ والا زیادہ کرایہ طلب کرے گاکیونکہ رکشہ ڈرائیور کو معلوم ہوتا ہے کہ سواری بارش سے بچنے کے لیے لامحالہ رکشہ پر سفر کرنے پر مجبور ہوگی۔پٹرول کے دام بڑھتے ہی پٹرول پمپ مالکان پمپ پر پٹرول کی سیل بند کردیںگے تاکہ اگلے روز اسی پٹرول کو مہنگے داموں فروخت کرسکیں۔خداجانے رمضان کے مہینے میں کیسا کیسا غلہ مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے ،عوام کو بھی تو جیسے ہابڑا سا ہوجاتا ہے کہ ہرچیز کو سٹاک کرنے پر تل جاتے ہیں جیسے خدانخواستہ کہیں قحط آگیا ہو،رمضان بے شک عام مہینوں سے افضل ہے لیکن ہم کتنا کھائیں گے؟اللہ کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس افضل مہینے میں ہمارے رویے کتنے برے ہوجاتے ہیں۔بے شک اس مہینے میں شیاطین کو قیدکردیا جاتا ہے لیکن ہم اپنی اناؤں کو قید نہیں کرپاتے۔نہ ہی ہم اپنی خودغرضیوں کو قابوکرتے ہیں ۔ ہم بازاروں میں چلتے ہوئے کس طرح دوسرے روزہ داروں سے لڑنے بھڑنے لگتے ہیں ۔ہم اپنے روزے کی مشقت کا سارا غصہ دوسروں پر نکال دیتے ہیں۔ صاحب ثروت لوگوں کے دستر خوانوں پراصراف کی کتنی نشانیاں موجود ہوتی ہیںکہ جن سے بہت سے نادار روزہ داروں کے دسترخوان سج سکتے ہیں۔روزہ صرف بھوک کو سہارنا تو نہیں بلکہ اللہ کی شکرگزاری کا حوالہ ہے ۔اگر اس میںبھی ہم اپنی خودغرضیوں کو ایک طرف نہیں رکھ سکتے تو پھر تویقینا ہم نے فقط فاقہ ہی کیا۔روزہ تو اپنی بھوک ،اپنے نفس اور اپنی انا کا امتحان لینا ہے تاکہ انسان خود پر اور اپنی خواہشوں پر حاوی ہوسکے۔اگر اس مہینے میں بھی ہم خود پر حاوی ہونہ سکے تو یقیناہم نے خسارہ ہی کیا۔رمضان کا مہینہ برکتوں کا مہینہ ہے ۔یہ برکتیں اسی وقت سمیٹی جاسکتی ہیں جب روزے کا صحیح حق ادا کیا جائے ،اور یہ حق اسی وقت ادا کیا جاسکتا ہے جب ہم اپنے اندر کے خناس پر قابو پالیں۔ کمال کی بات ہے کہ ہم مشکل کام کرجاتے ہیں یعنی بھوک پیاس پر صبر کرلیتے ہیںجو واقعی بشری تقاضوں کے حوالے سے ایک مشکل کام ہے لیکن جو قدرے آسان چیزیں ہیں ان پر قابو نہیں پاتے اور وہ آسان چیزیں ہمارے رویے ہیں کہ جنہیںبڑی آسانی سے بدلا جاسکتا ہے۔انسان چوبیس گھنٹوں میں چندمنٹ اپنے رویوں پر سوچ لے ۔اگر اندر سے ان رویوں سے بیزاری کی آواز آجائے تو پھر تبدیلی کی عمل شروع ہوجائے گا۔ اللہ ہمیں اپنی ذات کے محاسبے کی قوت عطافرمائے آمین۔

مزید پڑھیں:  سرکاری ریسٹ ہائوسز میں مفت رہائش