مبینہ سازش اور دستور سے انحراف

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے جنم لینے والے آئینی بحران میں دو سوال بطور خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک یہ کہ کیا اسپیکر کی غیرموجودگی میں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر رولنگ دینے کا اختیار رکھتے ہیں؟ دوسرا یہ کہ جب اتوار کا اجلاس منعقد ہی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لئے ہوا تھا تو ڈپٹی اسپیکر نے فواد چودھری کو کارروائی سے ہٹ کر سوال کرنے کی اجازت کیسے دی اور اگر اجازت دے دی گئی تھی تو پھر فواد چودھری نے بطور وزیر قانون جو سوال اٹھایا اس پر بحث کیوں نہ کرائی گئی اور آنا فانا رولنگ کیسے دیدی؟ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد اگلے چند منٹوں میں معاملات جس طرف بڑھائے گئے خود ان کی وجہ سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اندریں حالات یہ کہنا درست ہوگا کہ اصولی طور پر ازخود نوٹس کے فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہیے۔ دیگر ریاستی و انتظامی ذمہ داران کے ساتھ یہ نکتہ خود صدر مملکت کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ آئینی بحران ابھی ختم نہیں ہوااور انہوں نے وزیراعظم اور سابق اپوزیشن لیڈر کو نگران وزیراعظم کا نام بھیجنے کے لئے خط لکھ دیا ہے۔ نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے حوالے سے مشاورت کے عمل اور طریقہ کار دونوں کا آئین میں تفصیل سے ذکر ہے یہ سارا معاملہ حکومت اور ایوان کے ہوتے ہوئے طے پانا چاہیے تھا۔ فی الوقت تو حکومت، نہ ایوان اور نہ اپوزیشن لیڈر۔
سوموار کی سماعت میں معزز جج صاحبان کے دیئے گئے ریمارکس بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ معاملات اتنے سادہ ہرگز نہیں۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے صرف تحریک عدم اعتماد ہی مسترد نہیں ہوئی بلکہ متحدہ اپوزیشن کی جماعتوں اور ان کے ارکان اسمبلی کی حب الوطنی پر بھی سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو من و عن درست تسلیم کرلینے کا مطلب یہ ہوگا کہ اپوزیشن سازش کا حصہ بن کر غداری کی مرتکب ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر عام انتخابات کی طرف بڑھا جاتا ہے تو کیا یہ رولنگ متحدہ اپوزیشن کی جماعتوں کے امیدواروں کے خلاف کاغذات نامزدگی جمع کروائے جانے سے منظوری کے مرحلے میں بطور ہتھیار استعمال نہیں ہوگی۔یہ محض ہوائی باتیں اور خدشات ہی نہیں ایسا ہی ہوگا اس صورت میں سیاسی میدان میں کیسے تماشے لگیں گے اور ان تماشوں کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ انہیں قبل از وقت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عدالت کا یہ سوال بھی اہم ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر بحث کرائے بغیر جو کہ کم از کم تین دن ہونا تھی ، کیسے ووٹنگ کے لئے اجلاس کی تاریخ مقرر کردی گئی؟ عدالت کو بتایا گیا کہ بحث کے لئے اسپیکر کو درخواست کی گئی لیکن انہوں نے ووٹنگ کے لئے اجلاس3اپریل کو طلب کرنے کا حکم سنا دیا ۔ اس پر عدالت نے کہا کہ بحث کرانے کی اجازت نہیں دی گئی تو پھر پروسیجرل ڈیفیکٹ ہوا۔ مکرر اس امر کی جانب توجہ دلانا ازبس ضروری ہے کہ سنگین الزامات جن کی بنیادوں پر آرٹیکل 5کے تحت رولنگ دی گئی ان پر کہیں کوئی تحقیقات ہوئیں نہ متاثرہ فریق (اپوزیشن) کو سنا گیا۔ عدالتی سماعت میں بھی یہ نکتہ زیربحث آیا۔ عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کو آئینی تحفظ حاصل ہے؟ اسی طرح یہ سوال بھی عدالت میں زیربحث آیا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کی بھی آرٹیکل28کے تحت رولنگ دے سکتا ہے یا یہ صرف اسپیکر کا اختیار ہے۔ اتوار3اپریل کو یکے بعد دیگرے معاملات جس تیزی کے ساتھ نمٹائے گئے ان پر تحفظات اور سوالات جمہوریت یا ملک سے دشمنی کے زمرے میں نہیں آتے۔ سابق حکومت کے بعض وزرا پچھلے دو دن سے اپنے اقدامات کے دفاع میں مسلسل یہ تاثر دے رہے ہیں کہ سب کچھ آئین کے مطابق ہوا۔ اپوزیشن آئین کو ماننے سے انکاری ہے اور اب انتخابات سے بھاگنا چاہتی ہے اسے ہمارا مقابلہ کرنا چاہیے۔ سیاسی طور پر یہ گرما گرم گفتگو اور چیلنجز اپنے حامیوں کا لہو گرم رکھنے کے لئے یقینا اہم اور ضروری ہیں لیکن سابق وزرا اور مشیروں کو سمجھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کی اتوار کی کارروائی کا نوٹس کیوں لیا؟ ثانیا یہ کہ معاملہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور ایوان کی کارروائی کے حوالے سے اتنا سادہ نہیں جس طرح سابق حکمران جماعت کے رہنما پیش کررہے ہیں ان کے قانونی مشیروں کی آئینی، قانونی مہارت کا عالم یہ ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے صد مملکت کو بھجوائی گئی سمری میں قومی اسمبلی کی بجائے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی درخواست کی گئی۔ سابق حکومت کے لائق فائق مشیران قانون اور ڈپٹی اسپیکر سے غداری، سازش پر رولنگ کی درخواست کرنے والے عارضی وزیر قانون بھی اس بات سے لاعلم تھے کہ18ویں آئینی ترمیم کے بعد صدر مملکت کے پاس وزیراعظم کی درخواست پر صرف قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ہے۔یہاں ہم صدر مملکت کے حکم پر نگران حکومت کے قیام تک عبوری طور پر وزیراعظم کے فرائض ادا کرنے والے وزیراعظم عمران خان سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ بھی محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کریں۔ اپنے خلاف غیرملکی سازش اور اس میں اپوزیشن کے کردار کے حوالے سے کسی تحقیقات اور عدالتی سماعت میں شواہد کے ساتھ الزامات کو ثابت کیئے بغیر از خود اسے فیصلہ بناکر وہ جو انداز تکلم اپنائے ہوئے ہیں یہ کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ اب جبکہ وہ روزمرہ کے امور نمٹانے کے لئے وزیراعظم کے منصب پر کام کررہے ہیں تو سرکاری وسائل اپنے یکطرفہ موقف کی تشہیر اور مخالفین کو للکارنے کے لئے استعمال کرنے سے گریز کریں ثانیا یہ کہ غداری اور سازش کے جن الزامات پر وہ پچھلے دو ہفتوں سے اپوزیشن کے خلاف رائے عامہ ہموار کررہے ہیں ان الزامات پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے، مناسب ہوگا کہ عمران خان اپنے الزامات کو ثبوت سمیت عدالت میں لے جائیں تاکہ متاثرہ فریق کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ملے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ بہرطور ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ سابق حکمران قیادت اور اس کے سیاسی حریف دونوں تحمل و بردباری کا مظاہرہ کریں گے تاکہ مسائل نہ پیدا ہوں۔

مزید پڑھیں:  سرکاری ریسٹ ہائوسز میں مفت رہائش