جسٹس مقبول باقرکا سچ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر نے کہا ہے کہ جج کی معیاد اور فیصلے طاقتور حلقوں کی خوشنودی سے مشروط کرنا تباہ کن ہے2007ء کی ایمرجنسی کے دوران چیف جسٹس کوہٹانے کے واقعے کا گواہ ہوں جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ سمجھتا ہوں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود عدلیہ سائلین کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی آئینی ذمہ داری کے دوران سیاسی اور سماجی وابستگیاں آڑنے نہیں آنی چاہئیں غیر متوازن جوڈیشل ایکٹوازم قانون کی حاکمیت کے لئے موت کا سبب ہے ۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ تباہ کن ہو گا کہ کسی بھی جج کی معیاد اور فیصلے طاقت ور حلقوں کی خوشنودی سے مشروط ہوں حساس نوعیت کے مقدمات میں مخصوص ججز کوشامل نہ کرنے سے عدیلہ کی آزادی اور وقار مجروح ہوتا ہے ۔ہررخصت ہونے والا جج سبکدوش ہونے کے دن کچھ نہ کچھ ایسا سچ بول جاتا ہے جو دور ان سروس مختلف وجوہات کی بناء پر ان کی زبان پر نہیں آ پاتا یا پھر ممکنہ طور پر خواہش کے باوجود ایسا کر نہیں پاتا جسٹس مقبول باقر نے ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے اتفاقاً ایسے موقع پر خطاب کیا ہے جب ملک ایک آئینی بحران کا شکار ہے اور دو تین دنوں سے پوری قوم کی نظریں عدالت عظمیٰ پر ہیںجسٹس مقبول باقر نے گویا اس تاثر پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ ملکی عدالتوں میں فیصلے طاقت ور حلقوں کی خوشنودی سے مبینہ طور پر مشروط ہوتے ہیں اور ساتھ ہی سیاسی و سماجی وابستگیاں بھی آڑے آتی ہیں نیز عدلیہ سائلین کی توقعات پر پورا نہیں اترتی ظاہر ہے جب فیصلے مقتدر حلقوں کی اشارہ آبرو کے منتظر ہو اور ساتھ ہی منصفین کی سیاسی اور سماجی وابستگیاں آڑے آئیں تو عدلیہ کا سائلین کی توقعات پر پورا نہ اترنا اور انصاف کے عمل میں نا انصافی کا امکان موجود ہونا فطری امر ہوگا دم رخصت جسٹس مقبول باقر نے جس امر کی طرف اشارہ کیا ہے بلکہ واضح طور پر اور سریح لفظوں میں اس کا اظہار بھی کر دیا ہے جو موقع محل کی مناسبت سے تو بڑا دلچسپ ہے ہی علاوہ ازیں بھی یہ ہماری عدلیہ کے لئے نوشتہ دیوار ہے خود عدلیہ میں آزادانہ فیصلے کی جو قیمت ادا کی جاتی ہے ماضی قریب میں اس کی بھی مثالیں موجود ہیں جب تک عدلیہ جیسے معزز و محترم ادارے کے حوالے سے خود انہی کی صفوں میں اس طرح کی آوازیں اٹھتی رہیں گی عوام کا ان کو درست ماننا اور ان سے متاثر ہو کر منفی رائے قائم کرنا فطری امر ہو گا جو کھلی حقیقت جسٹس مقبول باقر سامنے لا چکے یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں بلکہ وکلاء برادری کی جانب سے بھی اور ساتھ ہی سول سوسائٹی کو بھی اس طرح کی شکایات رہتی ہیں جن پر ہمارے معزز و محترم منصفین کو غور کرنا چاہئے اور اس طرح کی نوبت نہیں آنے دینا چاہئے کہ عدلیہ کے حوالے سے کوئی منفی رائے سامنے آئے ۔عدالت کا وقار یقینا محترم ہے جس میں اضافہ انصاف کے کردار کا بلا شک و شبہ اظہار متقاضی ہے ۔
الزامات اور صفائی
پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے ایک منحرف رکن اور سابق صوبائی وزیر کی جانب سے پنجاب میں بدعنوانی کے کرداروں کے حوالے سے جو پریس کانفرنس کی گئی ہے قبل ازیں برطرف گورنر پنجاب کی جانب سے پنجاب ہی میں حکمرانی کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار برملا کیا گیا ضروری نہیں کہ ان سے پوری طرح اتفاق کیا جائے اس لئے کہ یہ وقت گزرنے کے بعد اور تعلقات میں خرابی آنے پر کئے گئے انکشافات اور اظہار خیال ہیں جس میں الزام لگانے والوں کی بدنیتی کے امکان کو یکسر طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا ا لبتہ جن کرداروں کا باقاعدہ نام لے کر الزام تراشی کی گئی ہے اور بطور خاص پنجاب میںبدعنوانی کے حوالے سے جس کردار کا ذکر کیاگیا ہے انسداد رشوت ستانی کے اداروں کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور الزام لگانے والوں سے تحقیقات کرکے ان سے ثبوت طلب کرنے کی ضرورت ہے اگر ا لزام درست ثابت ہوتے ہیں تو اس ضمن میں مناسب قانونی کارروائی کا آغاز ہونا چاہئے اور اگر الزامات غلط ثابت ہوں تو الزام لگانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو اور عوام کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں جن لوگوں کے حوالے سے الزا م تراشی کی گئی ہے یہ ان کا حق ہے کہ وہ الزام لگانے والوں کو قانون کے مطابق نوٹس دیں اور عدالت میں لے جائیں۔

مزید پڑھیں:  غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت