نماز پہلے بعدمیں اَذان ہوئی

چند دوست جو علم سیاسیات کے طالب علم بھی ہیں ‘ میرے ہاں ہفت روزہ نشست میں دیگر عنوانات کے علاوہ ملکی سیاست کے حوالہ سے خوب مکالمہ کرتے ہیں۔ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے مختلف رائے رکھنے کے باوجود گزشتہ نشست میں ہم سب ایک خوش فہمی میں مبتلا ہوئے۔ وہ خوش فہمی یہ تھی کہ اگلی صبح قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایجنڈا کے مطابق جب تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہو گی تو تمام اراکین اسمبلی اپنی آئینی ذمہ داری نبھاتے ہوئے نہ صرف اس میں بھرپور حصہ لیں گے بلکہ قائد ایوان جنہیں کچھ روز قبل ملک کے کونے کونے سے عوام نے اپنی تائید کا یقین دلایا تھا، اسمبلی میں اپنے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک کا جمہوری انداز میں سامنا کریں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا اور ایک آئینی بحران پیدا کیا گیا۔ ہمارے اہل سیاست نے جب بھی اسمبلی میں ایسے اقدامات کیے تو سپریم کورٹ یا دیگر اداروں کی مداخلت سے جہاں جمہوریت کا پہیہ رک جاتا ہے وہاں ہمارے آئین کی بالادستی باقی نہیں رہتی اور قوم کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ماضی میں غیر جمہوری طریقہ سے اقتدار پہ قبضہ کرنے والوں نے آئین کو ہمیشہ ایک کاغذی ورق ہی سمجھا اور تاریخ گواہ ہے کہ پوری قوم کو اس کے کیا کیانقصانات اٹھانے پڑے۔آئین کو اپنی منشا سے موڑنے اور جمہوریت کو کسی مفاد کے تحت بدنام کرنے کے نت نئے کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں، اب کے بار بھی عدم اعتماد کے حوالے سے تمام آئینی تقاضوں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔یوں3اپریل کے دن کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس لحاظ سے یاد رکھا جائے گا کہ ایک جمہوری حکومت کی طرف سے آئین کو بے توقیر کرنے کے لیے غیر آئینی اقدامات کیے گئے۔ پوری قوم کو اس روز ایک فلم دکھائی گئی۔ اجلاس شروع ہوتا ہے، سپیکر موجود نہیں کہ اس کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک جمع کی جا چکی تھی۔ ڈپٹی سپیکر نے ایجنڈا کی پرواہ کیے بغیر وزیرقانون کو تقریر کی دعوت دی’ انہوں نے اپوزیشن پر غیرملکی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور مطالبہ کیا کہ عدم اعتماد کی تحریک کو آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت مسترد کیا جائے۔ڈپٹی سپیکر نے سپیکر کی جانب سے لکھی ہوئی رولنگ سامنے رکھی اور وہ تحریر بڑی تیزی سے پڑھنے لگے جبکہ ہاتھوں سے کرسی کے بازو ایسے پکڑ رکھے جیسے اٹھنے والے ہوں۔ انہوں نے اس آرٹیکل کے تحت پیش کردہ تحریک کو مسترد کیا اور اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر کے اٹھ کر چلے گئے۔ اس کے فوری بعد وزیراعظم نے پہلے سے تیار شدہ ریکارڈڈ خطاب میں قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور90 دن میں انتخابات کا اعلان کیااور پھر صدر مملکت نے بھی فوراً اس کی توثیق کردی۔ اپوزیشن نے اس اقدام کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کردی۔ چیف جسٹس نے بھی ازخود نوٹس لیا اور سماعت کے لیے پانچ رکنی لاجر بینچ تشکیل دیا۔
حکومت کے ان اقدامات اور موجودہ سیاسی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقتدار کی خاطر سب کچھ داؤ پر لگانے کو پہلے سے تیار بیٹھے سیاسی نابالغوں نے مستقبل میں جمہوریت پر منفی اثرات کے بارے غور ہی نہیں کیا۔ یہ عمل الٹا گلے بھی پڑ سکتا ہے، نہیں معلوم کہ انہیں ایسا عمل کرنے کا مشورہ دینے والے کون ہیں اور ان کے اصل مقاصد کیا تھے۔ اگر پی ٹی آئی کو کسی نئے بیانیہ کے ساتھ دوبارہ انتخابی عمل میں لانا مقصود ہے اور اس کے لیے قبل از وقت انتخابات کو ہی ضروری سمجھا گیا تو پھر جو کچھ اسمبلی میں کیا گیا تو وہ کسی منظور نظر کو آگے لانے کے لیے بد ترین اور نامناسب راستہ ہے ۔ اب مسئلہ عدم اعتماد نہیں رہا بلکہ اصل مسئلہ آئینی بحران بن چکا ہے ۔ اس نئے امریکی بیانیہ کا بھی وہی نتیجہ نکلے گا جو مخالفین کو چور چور کہنے والے بیانیہ کا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں کوئی امریکہ مخالف پالیسی سامنے نہیں آئی بلکہ اس معاملہ میں ہماری وزارت خارجہ مکمل خاموش ہے۔ اب یہی ہوا کہ معاشی بحران میں مبتلا عوام کی توجہ ہٹانے کو آئینی بحران کھڑا کر دیا گیا ۔
اس کے ساتھ ساتھ دھمکی آمیز خط اور عالمی سازش کو بنیاد بنا کر غداری کے مقدمات کا چرچا بھی عام ہونے لگا ہے۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہو گی ‘اس لیے ضروری ہے کہ ایسے حساس معاملات سے گریز کرنا چاہیے ۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں کبھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے جس سے ملک کمزور اور تنہائی کاشکار ہوا ور معاشی مشکلات پیش آنے کا خدشہ ہو۔ پاکستان اور خطے کے حالات سب کے سامنے ہیں۔جن باتوں کے شواہد ہی نہ ہوں ‘انہی کا سہارا لینا ہرگز جائز نہیں۔ جلسے’ جلوس جمہوریت کا حسن ہیں مگر خدشہ ہے کہ یہی سرگرمیاں کہیں افراتفری اور انتشار کو ہوا دیتے ہوئے جمہوریت کی بساط کو بھی نہ لپیٹ دیں۔ پاکستان کی سلامتی، ترقی وخوشحالی کا رازجمہوریت میں پوشیدہ ہے’ آئین وقانون کی بالادستی کے بغیرہم بحیثیت قوم کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ عدالت نے کیا فیصلہ کرنا ہے مگر امید ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ملکی مفاد میں ہوگا اور اس کا احترام کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت پر اٹھتے سوال