سیاسی خلاء اور آئینی تقاضے

ایک اخباری خبرکے مطابق(تادم تحریر) وزیر اعظم ہائوس کے ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کو بطور وزیر اعظم کام جاری رکھنے کانوٹیفیکیشن جاری نہ ہو سکنے کی وجہ سے آئینی اور قانونی ماہرین عمران خان کے بطور قائم مقام وزیر اعظم اقدامات کو آئینی طور پر درست قرار دینے سے گریزاں ہیں ‘ اگرچہ صدر عارف علوی نے انہیں نگران وزیر اعظم کی تقرری تک بطور وزیر اعظم کام کرنے کی ہدایت کی ہے لیکن کیبنٹ ڈویژن سے (تاحال) یہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا ‘ جس کے بعد سنجیدہ آئینی مسائل کھڑے دکھائی دے رہے ہیں ‘ اور اس دوران عمران خان جس طرح وزیر اعظم ہائوس میں اپنی پارٹی کے اجلاس طلب کرکے صلاح مشورے کرر ہے ہیں، سرکاری ٹیلی ویژن پر تقریریں کرکے اپنی جماعت کے بیانئے کو آگے بڑھا رہے ہیں اور مبینہ طور پر مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف اپنا یکطرفہ بیانیہ آگے بڑھا رہے ہیں یا پنجاب اسمبلی کے معاملات پر لاہور میں ملاقاتیں کر کے بقول اپوزیشن رہنمائوں کے اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں ‘ اس پر سوالیہ نشان اٹھنا ایک فطری امر ہے ‘ اس حوالے سے نہ تو عدالت عظمیٰ کوئی سوال اٹھا رہی ہے ،نہ ہی الیکشن کمیشن کا موقف سامنے آرہا ہے ‘ اس ضمن میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے اس تازہ بیان کو بھی ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ ”ادارے عمران کو بطور وزیر اعظم ڈیل نہ کریں” یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس کا نوٹس لینا ضروری ہے، یا تو عمران خان کے بطور قائم مقام وزیر اعظم نوٹیفیکیشن جلد سے جلد جاری ہونا چاہئے یا پھر متعلقہ ادارے صورتحال کی وضاحت کریں تاکہ ابہام نہ رہے ۔
قبل از وقت انتخابات اور قانونی پیچیدگیاں
فری اینڈفیئرالیکشن نیٹ ورک(فافن) نے کہا ہے کہ قبل ازقت ا نتخابات کی راہ میں آئینی اور قانونی پیچیدگیاں ہیں ‘ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اور آئینی بحران پر فافن نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر متعدد آئینی ‘ قانونی اور آپریشنل چیلنجز کی نشاندہی کی ہے ‘ فافن نے کہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری ہونا ابھی باقی ہے ‘ خواتین ووٹرز کی کم رجسٹریشن بھی ایک اہم مسئلہ ہے ‘ فافن کے مطابق موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتوں پربھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو کنٹرول کریں ‘ تاکہ سیاسی اختلافات پرتشدد واقعات میں تبدیل نہ ہوجائیں ‘ فافن کے مطابق قبل از وقت انتخابات کی راہ میں بہت سی آئینی اور قانونی پیچیدگیاں ہیں ‘ سب سے بڑا مسئلہ کسی بھی الیکشن کی قانونی حیثیت کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا مکمل ہونا ہوتا ہے ‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری ہوناابھی باقی ہے ‘ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران حکومت میں آئین کے آرٹیکل 213(2B) کے تحت الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری غیر واضح ہے کیونکہ اس کے لئے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو تقرری کا عمل شروع کرنا ہوتا ہے ‘ جس کے لئے صرف سینیٹرز پر مبنی خصوصی کمیٹی بنائی جاتی ہے’ فافن نے بعض دیگر آئینی اور قانونی سوال اٹھائے ہیں ‘ چونکہ اسمبلی کی تحلیل(عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد صورتحال تبدیل بھی ہوسکتی ہے) کے بعد نہ وزیر اعظم نہ ہی قائد حزب اختلاف اپنے مناصب پر برقرار رہے ‘ حالانکہ اسمبلی کی موجودگی کے باوجود سابق وزیر اعظم عمران خان کا حزب اختلاف کے حوالے سے جو رویہ رہا ہے وہ بھی اس صورتحال کا باعث بنا کہ انہوں نے قائد حزب اختلاف سے کسی بھی قومی مسئلے پر آئین کے تقاضوں کے مطابق رابطہ سے انکار کیا’ اور اب صورتحال ایک ڈیڈ لاک کی طرف جارہی ہے ‘ بہرحال ملک میں عدالتیں موجود ہیں اور الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے عدالتوں سے رہنمائی لینے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے تاکہ معاملات نارمل صورت اختیار کریں۔

مزید پڑھیں:  غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت