سوشل میڈیا اور انتہا پسندی

سیاست پر آج کل بہت کچھ لکھا جا رہا ہے لیکن معاشرت پر پتا نہیں کیوں ہم نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ہمارے ارد گرد کیا ہورہا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں رونما ہونے والا واقعہ کس آسانی سے ہم بھول بھی گئے۔ ایک خاتون نے دن دیہاڑے سر عام ایک دوسری خاتون کا گلہ کاٹ دیا۔ یہ ہم رحمت اللعالمین کے نام پر کیا کرنے لگے ہیں۔ ایک مذاق بنا دیا ہے ہم نے ہر شخص مفتی بنا پھرتا ہے جیب میں فتوی لئے گھومتا ہے۔ مجھے یاد ہے وہ زمانہ کہ جب دور سے امام مسجد کو راستے پر آتا دیکھتے تو وہیں دم سادھے رک جاتے تھے۔ سلام اور حاضری کے بعد ہی ہمارے وجود میں حرکت آتی تھی۔ لیکن اب فیس بک، یو ٹیوب اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر کسی نے کچھ بھی سن لیا اور خود سے مفتی بن بیٹھے۔ قصہ یوں تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں مقیم محسود قبیلے کی دو خواتین جو مقامی مدرسہ سے فارغ التحصیل تھیں آپس میں آئے دن کوئی نہ کوئی مناظرہ کرنے بیٹھ جاتی تھیں اور بسا اوقات تلخ کلامی تک ہو جاتی۔ ایک دن ایک خاتون کو اس کی تیرہ سالہ رشتہ دار نے کہا کہ اس نے خواب دیکھا ہے کہ دوسری خاتون توہین رسالت کی مرتکب ہوئی ہیں اور اب اس کا گلہ کاٹنا ضروری ہے۔ اس لئے وہ خاتون دیگر دو خواتین کے ہمراہ مقامی مدرسہ کے سامنے پہنچیں اور جیسے ہی مطلوبہ خاتون رکشہ سے اتریں تینوں نے ہلہ بول دیا۔ برقعہ ہٹا کر گلے پر چھری پھیر دی اور اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔ پولیس کے سامنے بھی من ودعن یہی بیان دیا۔ پولیس نے بھی مزید تفتیش روک کر چالان جمع کردیا ہوگا۔ اب یہ جج کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ ایک خواب پر کس طرح توہین رسالت کا عذر مانا جا سکتا ہے۔ یہ سارا کام تفتیشی افسر کا تھا کہ کیس کو مکمل تفتیش کے ساتھ چالان بناتا۔ مطلب کل کو کوئی بھی یہ کہہ کر کہ اس نے خواب دیکھا ہے اور فلاں شخص توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے اسے موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ یہ ایک خطرناک رحجان ہے جو اس معاشرے میں جنم لے رہا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں ریاست مدینہ کے نام پر نوجوانوں کو جس راہ پر ڈال دیا گیا ہے اتنا تو دینی جماعتوں نے بھی نہیں کیا۔ سوشل میڈیا پر اب بھی وہ مناظر موجود ہیں کہ جس میں دو وفاقی وزرا خودکش حملہ آور بننے کے ارادے ظاہر کرتے ہیں۔ منطق اور دلیل کو معاشرے میں گالی اور دھمکی سے پر کردیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں ایک صحافی نے سوال پوچھا تو اسے بھی گالی سے نوازا گیا۔ جھوٹ، جھوٹ اور صرف جھوٹ سے پورے ملک کے جوانوں کو ”حسن بن صباح کی مصنوعی جنت”کے خواب دکھا کر انتہاپسند بنانے کا عمل انجانے میں نہیں کیا گیا بلکہ غیرملکی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئیں کہ جس میں قومی رحجانات کے گراف کے ساتھ بتایا گیا کہ مذہب اور مغرب دشمنی کے نعروں سے اس قوم کو گھیرا جا سکتا ہے۔ گھر گھر میں اب تقسیم آ چکی ہے۔ کیا سیاسی قیادت اور کیا ریاستی ادارے سب اس وقت گالم گلوچ کی زد میں ہیں۔ یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا اور نہ ہی یہ سب ایسے ہی ہوا۔ یہاں تک پہنچنے کے لیئے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ ہزاروں نوجوانوں کی گالم گلوچ کی تربیت کی گئی اور ایمان کی حد تک ان کو ایک نظریئے پر لگایا گیا۔اب اس کے ثمرات آنا شروع ہوگئے۔ پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ ہماری سیاسی قیادت اور اداروں کو اب اس وائرس کا توڑ کرنا ہوگا۔ بلکہ کئی ادارے بنانا ہوں گے کہ جو ابلاغی جنگ کے نام پر بننے والی اس انتہا پسند نسل کو راہ راست پر لا سکے اور مستقبل میں ان کے ذریعہ درپیش چیلنجز کا سامنا کر سکے۔ یہ نسل تیار تو کی گئی تھی اس نام اور امید کے ساتھ کہ یہ بیرونی محاذ پر لڑے گی لیکن ان کی تمام تر توجہ ملک کے اندر جمہوری اداروں اور جمہوری قوتوں کے خلاف رہی۔ دراصل ہمارے ادارے اس چال کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ ملک کے اندر جو نسل تیار ہو رہی ہے ایک دفعہ یہ تیار ہو جائے تو پھر اسے کسی بھی وقت آسانی سے عسکریت پسندی کی طرف راغب کیا جا سکے گا۔ یقین مانئے کہ یورپ اور خلیجی ریاستوں کی نوجوان نسل اسی طرح سوشل میڈیا پر تیار ہوئی اور یہ نسل کیسے داعش جیسی تنظیموں کے ہتھے چڑھی اس پر اب تو کافی تحقیق کی جا رہی ہے اگر ادارے اور سیاسی قیادت صرف رک کر بیٹھ کر کڑیاں ملانے لگیں تو ان کو اس سارے ڈیجیٹل سازش کے تانے بانے مل جائیں گے۔ اس سلسلہ میں ان کو ان محقیقین کی ضرورت پڑ سکتی ہے کہ جو یورپ، امریکہ اور خلیجی ریاستوں میں داعش اور نوجوان نسل کی ترجیحات پر کام کر رہی ہیں۔ وہ انہیں بتائیں گے کہ کس طرح نوجوان نسل پہلے سیاسی طور پر اسلام کے نام پر ایک ”مثالی ریاست ”کے نعرے میں پھنسا دیئے گئے اور پھر ان کو جنگ اور تشدد کی طرف موڑا گیا۔
یہ جو واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوا ہے اس کو صرف ایک واقعہ سمجھ کر بھول جانا ہماری بہت بڑی حماقت ہوگی۔ ایک دن میں یہ خاتون اس عمل تک نہیں پہنچی بلکہ اردگرد کا ماحول اور اس کی سوچ اس کو یہاں تک کئی برس لگانے کے بعد لے آئی۔ کلاچی میں ایک سیاسی خاندان پر خودکش حملوں کے لئے حملہ آور کہاں سے آئے، وہ کیسے تیار ہوئے۔ ظاہری بات ہے کہ اس خطہ میں یہ سوچ ہے اور اس کو آشیرباد حاصل ہے تبھی تو یہ ممکن ہوئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اگر اس وبا پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ ہمارے اداروں’ سکولوں’ کالجوں عرضیکہ کہ جہاں نوجوان ہوں گے وہاں پھیلے گی۔ اس سلسلہ میں علماء کرام کا بہت بڑا کردار ہوگا کہ وہ اس انتہاپسندانہ سوچ کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کریں۔ گو کہ اس وقت آپ کو یہ انتہاپسندی پر مبنی سیاسی سوچ نظر آئے گی لیکن کب یہ متشدد ہو گی آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا۔
اپنے تجربہ اور مشاہدے کی بنا پر اندازہ لگا سکتا ہوں کہ کم ازکم خیبر پختونخوا کی حد تک دہشت گردی میں اضافہ ہونے والا ہے اور اس میں اکثریت نوجوان لوگوں کی ہو گی۔ اندر کی خبر یہ ہے کہ اداروں نے سوشل میڈیا پر ملک کو ہیجانی صورتحال سے دوچار کرنے’ افواہوں کو پھیلانے’ غیر یقینی صورتحال کو برقرار رکھنے اور اہم شخصیات کے خلاف ہتک آمیز مہمات چلانے کے نیٹ ورک کا سراغ لگا لیا ہے۔ اس میں سابق وزیراعظم سمیت دو وزرا و مشیران’ ایک بیوروکریٹ’ٹی وی کے تین اینکرز اور سوشل میڈیا کی ایک منظم ٹیم کے ملوث ہونے کے ابتدائی شواہد ملے ہیں اور ان خطوط پر ابھی کام جاری ہے۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟