تحریک انصاف کے استعفے اور احتجاج کی سیاست

سابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد پی ٹی آئی اراکین نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے شروع کردئیے ہیں۔اجلاس میں موجود کچھ اراکین نے اسمبلیوں سے استعفیٰ نہ دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں جمہوری لڑائی کی تجویز بھی پیش کی۔اس وقت قومی اسمبلی کی صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف140ارکان کے ساتھ ایوان کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ باقی جماعتیں اس سے کم نشستیں رکھتی ہیں اور موجودہ تشکیل پانے والی اتحادی حکومت کے پاس بھی ایوان میں صرف سادہ اکثریت ہے۔ تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کا خیال ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جب ارکان مستعفی ہوں گے تو ایک بڑا بحران پیدا ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے لئے ضمنی انتخاب کرانا ممکن نہیں رہے گا اور بالآخر نئے انتخابات کا اعلان ہو جائے گا۔یہ ایک حکمت عملی تو ہو سکتی ہے، تاہم ضروری نہیں کہ حالات ویسے ہی رونما ہوں، جیسے استعفے دینے کے بعد توقع کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کا فوری انتخابات کے لئے اجتماعی استعفے دینے کی تجویز پارٹی کو ملک کے سب سے بڑے ایوان میں نمائندگی سے محروم کر سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اس فیصلے کے بعد ملک میں لازمی طور پر عام انتخابات ہو جائیں۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں کہہ چکا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے سات ماہ بعد ہی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے گا۔ گویا سات ماہ سے پہلے تو انتخابات کا انعقادہ ویسے بھی ممکن نہیں چاہے تحریک انصاف اسمبلی سے مستعفی ہی ہو جائے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرز سیاست دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں مختلف رہی ہے وہ اقتدار سے محرومی کے بعد سڑکوں پر آہی چکے ہیں اب ان کی خواہش ہو گی کہ اسمبلیوں کی بجائے سڑکوں پر سیاسی لڑائی لڑی جائے لیکن دوسری جانب خود تحریک انصاف کو ماضی میں چھ ماہ اسمبلیوں سے استعفے کے بعد استعفے واپس لے کر تمام مراعات کی بھی وصولی کا تجربہ اور اس کے نتائج کا بھی جائزہ لینا ہو گاجبکہ استعفوں کی صورت میں صرف قومی اسمبلی سے استعفے زیادہ موثر نہیں ہوں گے بلکہ خیبر پختونخوا حکومت کی قربانی کے ساتھ ساتھ سینٹ سے بھی مستعفی ہو کر ہی استعفوں کی حکمت عملی کو حکومت کے لئے موثر دبائو کا ذریعہ بنایا جاسکے گا کیا تحریک انصاف اس کے لئے تیار ہو گی ان تمام عوامل کے جائزے اور سوالات کے جوابات سوچنے کے بعد ہی حکمت عملی وضع کی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
ذمہ داروںکے خلاف جلد کارروائی کی جائے
تیمر گرہ میں پاکستان تحریک انصاف کے مشتعل کارکنوں کی جانب سے مدرسے پر دھاوا ‘ علماء پر تشدد’ مسجد میں توڑ پھوڑاور بے حرمتی اور عالم دین کی داڑھی نوچ ڈالنے کا واقعہ افسوسناک ہے ۔ پی ٹی آئی لوئر دیر کی جانب سے تیمرہ میں مسجد پر حملہ سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے شرپسند عناصر کی کارروائی قرار دیاگیا ہے جس سے قطع نظر یہ افسوسناک واقعہ بہرحال ایک ایسے وقت ہوا ہے جب تحریک انصاف کے کارکن سڑکوں پر مظاہرے کر رہے تھے ایسے میں شرپسندی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا یہ مظاہرہ کرنے والوں اور انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ شرپسندوں سے ہوشیار رہتے اس کی ذمہ داری سے انکار کافی نہیں بلکہ یہ حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس واقعے میں ملوث عناصر خواہ ان کا تعلق حکمران جماعت سے ہی کیوں نہ ہو بہرصورت ان کی گرفتاری اور قانون کے مطابق کارروائی ہی کے بعد اس واقعے کے رد عمل کے امکان کو کم کیا جا سکتا ہے ۔یہ کوئی اندھے قتل کا واقعہ نہیں بلکہ اس کی باقاعدہ ویڈیو اور تصاویر موجود ہیں جس میں نظر آنے والے تمام افراد کی گرفتاری اب تک ہونی چاہئے تھی اگر اس طرح کا سلسلہ چل نکلا اور ردعمل سامنے آنے لگا تو یہ خود حکومت اور تحریک انصاف کے حق میں بہتر نہ ہو اگر اب تک گرفتاریاں عمل میں نہیں لائی گئی ہیں تو اس میں مزید تاخیر نہ کی جائے جبکہ روایات کے مطابق اس حوالے سے جرگہ کرکے حالات کی کشیدگی کی جانب جانے سے روکا جائے شعائر اسلام کی بے حرمتی کو کسی جماعت اور فرقے سے منسوب نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ ایک اجتماعی جرم کے زمرے میں آتا ہے جو غیر سیاسی لوگوں کے بھی مشتعل ہونے کا باعث بن سکتا ہے ۔لہٰذا اس حوالے سے جلد سے جلدقانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ واقعے سے پیدا شدہ غم و غصے میں کمی لانے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں تاکہ یہ واقعہ خدانخواستہ کسی بڑے واقعے کی بنیاد نہ بنے ۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے