افغان حکمرانوں کی بتدریج کامیابیاں

افغانستان کی طالبان حکومت کا کسی بھی ملک کی جانب سے تسلیم نہیں کیا جانا اْن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک مطالبہ کررہے ہیں کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے۔ حالات بتارہے ہیں کہ طالبان عبوری حکومت کے بجائے ایک مستقل حکومت اور کابینہ کی تشکیل پر غور کرسکتے ہیں۔ طالبان کے رہبری شوریٰ کے اراکین اور سینئر رہنمائوں کا ایک اہم اجلاس آئندہ چند روز میں ہونے کا امکان ہے اس باضابطہ اجلاس سے پہلے طالبان امیر شیخ ہیبت اللہ نے اپنے طالبان رہنمائوں سے غیر رسمی مشورے کیے، محسوس یہ ہورہا ہے کہ شوریٰ کے اس اجلاس میں اہم فیصلوں کا امکان ہے۔ چند ماہ قبل جنوری میں طالبان رہنمائوں کا وفد اپنے وزیر خارجہ امیر اللہ متقی کی سربراہی میں اوسلو گیا تھا جہاں انہوں نے مغربی ممالک کی دعوت پر مذاکرات میں شرکت کی۔ اوسلو میں طالبان نے امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، یورپی یونین اور ناروے کے نمائندے سے مذاکرات کیے۔ پہلے کی بات چیت کے بعد طالبان کے ایک عہدیدار نے خبررساں ایجنسی ایسوسی ایشن اٹیڈ پریس (اے پی) سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکرات افغان حکومت کو قانونی طور پر تسلیم کرانے کی سمت میں ایک قدم ہے۔
اگرچہ بعد میں ناروے کے وزیر خارجہ نے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ افغان مذاکرات کے یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ یہ مذاکرات طالبان کے قانونی جواز کو تسلیم کرنی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے امریکا نے افغانستان کے مرکزی بینک کے نو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردیے ہیں جس کے باعث افغانستان میں انتہائی بھوک اور افلاس اور انسانی حقوق کے سلسلے میں انتہائی خراب صورت حال کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ اس سلسلے میں بھوک اور افلاس کے طوفان کا اشارہ کرچکا ہے۔ اصل اشارہ تو امریکا کے لیے ہونا چاہیے تھا کہ افغانستان کے اثاثے ان کے حوالے کیے جائیں۔ تا کہ وہ اپنے عوام کی بھوک اور افلاس کا انتظام کرسکیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ افغان طالبان مارچ 2022ء میں اسلام آباد میں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس میں افغان وزیر خارجہ نے دعوت کے باوجود شرکت نہیں کی۔ جبکہ عین اسی زمانے میں انہوں نے ترکی میں ایک کانفرنس میں شرکت کی اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے دفتر میں ڈیبورا لائنز سے ملاقات کی جس میں افغانستان حکومت کو تسلیم کرنے اور اس پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
سوال یہ ہے کہ افغان وزیر خارجہ اقوام متحدہ کے نمائندے سے تو اپنی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے مطالبہ کررہے ہیں لیکن اسلامی ممالک کے اس اہم فورم سے اپنے آپ کو الگ رکھا۔ اس سے پہلے 2021ء میں اگرچہ انہوں نے او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ اس سال کے اجلاس میں افغانستان ایجنڈے کا اہم موضوع تھا۔ وزیرخارجہ کی عدم شرکت اور نچلے درجے کے وفد موجودگی مسلم ممالک اور افغان حکومت کے درمیان ایک خلیج کو ظاہر کرتی ہے۔ ظاہر ہے اس کی وجہ اسلامی ممالک میں سے کسی کا بھی افغان حکومت کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرح او آئی سی میں بھی افغانستان کی سیٹ سابق حکومت کے پاس ہی ہے۔ اگرچہ سابق حکومت کے کسی نمائندے کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ دوسری طرف موجودہ طالبان حکومت کو خصوصی مہمان کی حیثیت سے او آئی سی کانفرنس میں شرکت کی دی گئی تھی۔
گزشتہ بیس سال کے دوران افغانستان میں ایک نئی نسل جوان ہوئی ہے خود طالبان رہنمائوں نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور ذمے داری، رواداری اور سمجھ داری کے ساتھ اپنی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ انہوں نے کسی بیرونی امداد اور منجمد اثاثے بحال ہوئے بغیر افغانستان کا پہلا سالانہ بجٹ تیار کرلیا۔ اگرچہ وزارت خزانہ نے بجٹ کا حجم بتانے سے گریز کیا۔ ملک کی پیچیدہ صورت حال اور معاشی بحران میں طالبان کا بجٹ تیار کرنا ہی ایک بڑا کامیابی ہے۔
حال ہی میں افغان حکمرانوں نے عالمی سطح پر ایک اور بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ یعنی روس نے اپنے ملک میں طالبان سفارت کار کے تقرر کی اجازت دے دی ہے۔ ماسکو میں افغان سفارت خانے کا انتظام بھی طالبان کے سفارتی نمائندے کے حوالے کردیا گیا ہے یہ افغانستان کے طالبان حکمرانوں کو ”روس کی طرف سے تسلیم کرنے کا ابتدائی قدم ہوسکتا ہے۔ مسلم حکمرانوں کو بھی ایسی پیش رفت کرنی چاہیے۔ امریکا سے خوف زدہ ہونا اپنی جگہ لیکن طالبان کے اثرات بھی نہایت اہم بھی ہیںاور ساتھ قریب ترین بھی ہیں۔(بشکریہ جسارت)

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟