ہم مشکور ہیں

ہم شکر گزار ہیں ان لوگوں کے جنہوں نے ہمیں دوسروں سے بچا لیا ‘ ہم شکر گزار ہیں ان لوگوں کے جنہوں نے ہمیں پریشانیوں کا شکار نہیں ہونے دیا ‘ ہم شکر گزار ان لوگوں کے جنہوں نے ہمیں امریکہ کی مخالفت کرنے کی جرأت جیسی بے وقوفی نہ کرنے دی ‘ ہم شکر گزار ہیں ان لوگوں کے جنہوں نے ہمیں ہماری اصل اوقات یاد دلائی کہ ہم فقیر ہیں اور فقیروں کی بھکاریوں کی کوئی مرضی نہیں ہوتی ۔ہم شکر گزار ہیں ان لوگوں کے جنہوں نے اس سب کے لئے نہایت تندہی سے کام کیا’ ہم شکر گزار ہیں ان لوگوں کے جنہوں نے عظیم لوگوں کی مدد کی جو پل بنے جنہوں نے عمران خان کی حکومت سے جان چھڑانے میں ہماری مدد کی غیرت ‘ حمیت کی باتیں انہیں راس آتی ہیں جنہیں دووقت کی روٹی نصیب ہو اور جو خود ہی بھوکے ننگے ہوں انہیں ایسی آسائشوں میں پڑنا ہی نہیں چاہئے ۔ ہم شکر گزار ہیں کہ ہمیں ایسی بڑی حماقت سے بچا لیا گیا ۔ یہ بات اب ویسے بھی کسی مناسبت کے بغیر ہے کہ پاکستانیوں جیسی قوم حمیت اور غیرت کی بات کرے سو شکر ہے کہ اب ہم ایسا کچھ نہیں کریں گے ۔ اب ہمارے وزیر اعظم میاں شہباز شریف ہیں ان کے اقتدار سنبھالتے ہی بھارت اور امریکہ سے ہمارے بہترین تعلقات کا در وا ہوگیا ہے ۔ اب راوی چین ہی چین لکھے گا ۔اب مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں یکدم اضافہ ہوا یا ٹماٹر کی قیمت بڑھ گئی یا پھر مرغی کا گوشت لوگوں کی گرفت سے اپنی قیمت کے باعث پھسلنے لگا اس سب سے ایک عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بہرحال ڈالر کے مقابلے میںروپے کی قیمت مستحکم ہو رہی ہے ۔ جہاں تک اس ملک میں سیاسی ہماہمی کا سوال ہے تو اس میں کوئی سمت یا مطلب تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے کے برابر ہے ۔ ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے معاملات کا مناسب اور پسند نا پسند سے متاثر ہوئے بغیر تجزیہ کرناہی میرا کام ہے ۔ اگرچہ اس وقت ماحول میں ایسی گرمی اور شدت ہے کہ ایسا کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن پھربھی اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ صورتحال کی اس یکدم تبدیلی میں عمران خان کے بیانیے میں حقیقت دکھائی دیتی ہے ۔ وہ جس خط کا ذکر کرتے ہیں ‘ پی ڈی ایم والے درست کہتے ہیں کہ اس خط میں ایسی کوئی بات نہیں ایسے کئی خط تو پہلے بھی آتے رہے ہیں مسئلہ صرف یہ ہے کہ صرف اب کی بار ایسی دھمکیوں پر ایسا ردعمل دیا گیا ہے حمیت کی بات کی گئی ہے اور غم و غصے کا اظہار کیا جارہا تھا۔ اسی لئے تو تبدیلی لازم ہو گئی تھی۔ اس خطے میں موجود ملکوں میں سے ہر ایک کے حوالے سے امریکہ کی ایک رائے یا تجزیہ ہے اور اسی پر مبنی ایک پالیسی ہے جو امریکہ کے رویے مرتب کرتی ہے ۔ بھارت امریکہ کے لئے ایک ارب سے زائد انسانوں کی منڈی ہے ۔ ان جذبات کا اظہار امریکہ کے گزشتہ صدر بل کلنٹن نے کیا تھا ۔ اس ایک جملے میں بھارت سے امریکی تعلقات کی ساری نفسیات پنہاں ہے ۔ پاکستان اس لئے اہم ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ معاملات میں مدد گار ہے اور اس مددگار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ چین پر نظر رکھنے میں بھی استعمال ہو سکتا ہے ۔ افغانستان کے مقابلے میں پاکستان امریکہ کے لئے اہم ہے ۔ پاکستان ایسے ملکوں میں امریکہ ہمیشہ اپنی مرضی کے حکمران تعینات کرتا ہے کہ جب چاہے ان کا ہاتھ دبا سکے ‘ جب چاہے گھٹنا دبا دے ایسے میں عمران خان جیسے حکمران کا پاکستان میں موجود ہونا کسی طور بھی مناسب نہیں سو عمران خان اب سڑکوں پر موجود ہیں اور وہاں وہ موجودہ حکومت اس کے چاہنے والوں اور امریکی مفادات کے لئے پہلے سے زیادہ خطرناک ہیں ۔ اگرچہ وہ پہلے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے لیکن ماضی کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اس عدم اعتماد کے بارے میں جو پیشگوئیاں کی گئی ہونگی وہ خاصی غلط ثابت ہو رہی ہیں ۔ صحیح موسم کا چنائو بھی کیا گیا تھا کیونکہ رمضان بھی تھا اور گرمی کی شدت بھی بڑھتی چلی جائیگی ۔ عوام مہنگائی سے نالاں بھی تھے سو حساب کہتا ہوگا کہ نہایت آسانی سے سارا مرحلہ طے پایا جائے گا۔مسلم لیگ نون کا ایجنڈا بھی واضح ہے ۔ انہوںنے چند انتخابی اصلاحات کرنی ہیں ‘ نیب کا خاتمہ کرنا ہے اور آقائوں کو خوش کرنا ہے ۔ وہ سب اب کٹھائی میں پڑتا دکھائی دے گا تو مسلم لیگ نون سمیت ساری پی ڈی ایم پریشانی کا شکار ہو گی پاکستان میں امریکہ مخالف جذبہ ہی ایک ایسا واحد جذبہ ہے جو اس بکھرے ہوئے ہجوم کو یکدم قوم بنا دیتا ہے ۔ اس کا مظاہرہ عمران خان کے پہلے جلسے میں ہی صاف دکھائی دے گیا ہے ۔ اس جلسے سے پہلے عوام کا وہ اکٹھ بھی ذہن میں رکھئے جو ملک کے مختلف شہروں میں اس تبدیلی کے خلاف دکھائی دیا ہے اور اس وقت کوبھی یاد رکھئے جب میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان بدل رہا ہے ۔ پاکستان کے عوام کے تقاضے بدل رہے ہیں۔۔ اب سیاست دانوں کو بدلنا ہوگا ورنہ ساری پرانی دوکانیں خالی ہو جائیں گی۔ یہ کام اتنا آسان نہ ہوگاجتنا کہ اندازہ لگایا گیا تھا۔ امریکہ اور پی ڈی ایم دونوں کو ہی اپنی حکمت عملی پر غور کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟