اسلامو فوبیا کا تدارک

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اسلامو فوبیا کے مسئلے سے نمٹنے کی کاوشوں کو تیز کرنے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور مسلم اقلیتوں کے تحفظ کے لئے او آئی سی کے کردار کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامو فوبیا کا گھناؤنا رجحان کم نہیں ہوا، جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور جرائم گہری تشویش کا باعث ہیں، بھارت میں بے گناہوں کا قتل، فرقہ وارانہ فسادات اور الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر اسلام کی منفی تصویر کشی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، ہمیں سچائی پر مبنی خبروں کے ذریعے جعلی خبروں کا مقابلہ کرنا ہوگا، ترکیہ کے شہر استنبول میں او آئی سی کے وزرائے اطلاعات کے بارہویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل سے درخواست کی کہ اسلاموفوبیا کے معاملے پر خصوصی نمائندے کا تقرر کریں، انہوں نے کہا کہ پاکستان اور نائیجیریا جیسے او آئی سی کے کئی رکن ممالک دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے دو چار ہیں، پاکستان میں حالیہ سیلاب سے تقریباً 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، متاثرہ ممالک میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے فنانسنگ کو بڑھایا جائے، انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا دور آنے کے بعد پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کیلئے اوآئی سی نے نمایاں کوششیں کی ہیں، ہم ذرائع ابلاغ اور پبلک پالیسی پر او آئی سی کمیشن پروگرام 2025ء کے ساتھ اپنی بھرپور وابستگی کا اعادہ کرتے ہیں اور اس ضمن میں او آئی سی کے رکن ممالک کی استعداد کار میں اضافے اور بہترین طریقے استعمال میں لانے کے عزم پر بھی کاربند ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے اسلامو فوبیا کے حوالے سے جن مسائل کی جانب اشارہ کیا ہے اصولی طور پر اوآئی سی جیسی تنظیم کو انہیں اپنی فہرست میں اولین کے درجے پر رکھنے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ سوچنا پڑے گا، بدقسمتی سے اس وقت دنیا کے ان ممالک میں جہاں دیگر ادیان کے ماننے والے بستے ہیں، اسلام کے حقیقی تصورات اور تعلیمات کو سمجھے بغیر صرف اور صرف بغض، عناد اور نفرت کی بنیاد پر اسلام کی مخالفت کی جا رہی ہے اور خاص طور پر اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ کر لوگوں کے ذہنوں کو آلودہ کیا جا رہا ہے، حالانکہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے اور دہشت و غارت گری کا اس سے دور تک کا واسطہ نہیں ہے، اس وقت جس طرح اسلامی حجاب کے خلاف دنیا بھر میں نفرت پھیلائی جا رہی ہے اس کے عملی مظاہرے مغربی دنیا میں عام ہیں، مسلمان خواتین کے سروں سے حجاب اتارنے کی وارداتیں عام ہیں، مسلمان خواتین اور خصوصاً نوجوان لڑکیوں اور بچیوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں تعصب کے حوالے سے جو خبریں ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آ رہی ہیں ان سے عالمی سطح پر نفرت اور تعصب میں اضافہ ہو رہا ہے، یہاں تک کہ بعض ممالک کے اہم ترین سیاسی رہنما بھی اس قسم کے متعصبانہ رویے کا شکار ہو کر اسلامی تعلیمات کے خلاف زہر اگلنے اور عملی اقدامات کر کے مغرب کے مجموعی نفرت انگیز رویے کو بڑھاوا دیتے رہے ہیں، اسلامی شعائر کی بے حرمتی اور مقدس ترین ہستیوں کے خلاف غلیظ بیانیوں سے مسلمانان عالم کے جذبات مجروح کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے، جن کی وجہ سے آئے روز مسلمان ممالک میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات بھڑکانے کے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل کر کے دراصل وہ مغرب مخالف احتجاجی مظاہروں سے دوہرے مقاصد حاصل کرتے ہیں، ایک تو اپنے خبث باطن کے اظہار میں کامیاب ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ مسلمانوں کے احتجاجی مظاہروں کو اپنے اسلام دشمنی سے بغیر کرتے ہوئے اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسے بھی مسلمانوں کی مبینہ شدت پسندی اور دہشت گردی سے جوڑ کر اسلام سے نفرت میں مزید اضافے کے مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں، اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اسلامو فوبیا کے حوالے سے سیکرٹری جنرل اور آئی سی کو خصوصی نمائندے کے تقرر کی جو تجویز دی ہے، یقیناً یہ ایک مثبت تجویز ہے اور او آئی سی کے رکن ممالک کو اس تجویز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے عالم اسلام کو درپیش مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کرنی چاہئے،کیونکہ اس وقت عالمی سطح پر دیگر مذاہب کے اندر جس طرح اسلام سے نفرت میں اضافے کو میڈیا کی طاقت سے سرایت کیا جا رہا ہے، اگر مسلمان ممالک نے اس پر عملی اقدامات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی میں بتدریج اضافہ ہوتا رہے گا اور مسلمان ممالک کو تو ایک طرف رکھئے، ان ممالک میں جہاں یا تو مسلمان اقلیت میں ہیں جیسے کہ بھارت، یا پھر ان مغربی معاشرے جہاں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، وہاں مسلمانوں کے ساتھ نفرت میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا اور ان کی زندگی اجیرن بنا دی جائے گی، اس سلسلے میں او آئی سی کے رکن ممالک کو اپنے ذرائع ابلاغ کو جدید خطوط پر استوار کر کے مغربی پروپیگنڈے کا توڑ کرنے پر توجہ دینا پڑے گی اور اسلام کی تعلیمات کو آگے بڑھانے اور اسلامی تعلیمات کی حقیقی تصویر کو اہل مغرب تک پہنچانے کیلئے مشترکہ کاوشیں کرنا پڑیں گی تاکہ اسلام مخالف پروپیگنڈے کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !