حیات اور کرہ ارض خطرے میں

ماحولیاتی آلودگی بے شمار ذرائع اور اسباب سے پھیلتی ہے لیکن ہم اسے صرف دھویں ‘ ٹائر جلانے بھٹہ خشت کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں اور ماربل کے کارخانوں وغیرہ تک محدود رکھ کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اس سب میں ہمارا حصہ اور قصور نہ ہونے کے برابر ہے حقیقت میں ایسا نہیں اگر میں یہ کہوں کہ ہم میں سے جوبھی جس چیز کا اضافی استعمال کرتا ہے اس کا ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں حصہ ہے پانی کا ضرورت سے زیادہ استعمال بھی ماحول کو تباہ کرنے اور قدرت کی عظیم نعمت کوضائع کرنا ہے ۔ یہی پانی کفایت سے استعمال ہوتا تو کسی جاندار اور پودے کو میسر آسکتا تھا اس پانی کو نکالنے کے لئے جو ایندھن استعمال ہوتا ہے اور اس پانی کو گھرتک پہنچانے اور زیر زمین واٹر ٹپٹک سے چھت پر ٹینکی تک پہنچانے کے لئے جوتوانائی استعمال ہوتی ہے اس کی بچت بھی ہو سکتی تھی اور فضائی آلودگی کے اسباب میں بھی کمی ہو سکتی تھی ہم میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں یہ جو سمارٹ موبائل فونز ہیں اور جس بے دریغ طریقے سے اس کا استعمال ہوتا ہے یہ صرف ہمارے ہی لئے مضر صحت نہیں بلکہ یہ بھی آلودگی کا باعث ہے آلودگی سے ہر دو آلودگی مراد لی جائے تو زیادہ با معنی ہوگا۔ انفرادی و اجتماعی طور پر پلاسٹک کا استعمال اس قدر زیادہ ہے اور اس اس طریقے سے اس کا استعمال جاری ہے کہ سوچنے اور گننے لگ جائیں تو حیرت ہو گی۔جس غیر محسوس طریقے سے ہم پلاسٹک کے ذرات نگل رہے ہوتے ہیں بلکہ کھا پی رہے ہوتے ہیں اس کی تفصیل میں جائیں تو کالم کا دامن کم پڑجائے ۔ ہر سال دنیا میں چار کروڑ ٹن پلاسٹک کی مصنوعات بنائی جاتی ہیں پلاسٹک ہلکی اور کم وزن چیز ہوتی ہے ذرا اندازہ لگائیں کہ چار کروڑ ٹن پلاسٹک کا کتنا حجم ہو گااور اس میں کیا کیا چیزیں اور مصنوعات شامل ہوںگی میں تو کم از کم چار کروڑ ٹن سالانہ بننے والی پلاسٹک کاچشتم تصور اور تخیل میں بھی اندازہ نہیں لگا پائی مجھے تو بس اپنا آپ اور اپنے ارد گرد کی دنیابس پلاسٹک میں لپٹی اور گھری ہوئی محسوس ہوئی مشکل امر یہ ہے کہ اس چار کروڑ ٹن پلاسٹک کی مصنوعات میں سے صرف نو فیصد ری سائیکل یعنی دوبارہ استعمال ہوتی ہے باقی اکیانوے فیصد پلاسٹک اس ارض و سمندر کابوجھ بن جاتی ہے سالانہ چار کروڑ ٹن پلاسٹک بنتے بنتے اور اس کا استعمال ہوتے ہوتے کتنے سالوں میں یہ اس کرہ ارض کے برابر اور اس سے یہ کرہ اٹ اور گھر جائے گا اس کی تصورہی لرزا دینے والا ہے اسی طرح سوچیں اور دیکھیں تو ہر طرف پلاسٹک اور پلاسٹک کے ذرات ہی سامنے آتے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں مگر ہمیں اس کا ادراک اس لئے نہیں کہ ہم اس پر غور ہی نہیں کرتے کہ ہماری دنیا اور اس کرہ ارض کو خود ہمارے ہاتھوں کس قدر خطرات کا سامنا ہے ہم جسے قدرتی آفات قراردیتے ہیں اگر ان سیلابوں اور موسمی شدائد کے اسباب پر غور کریں تو اس کی ذمہ دار قدرت اور فطرت نہیں بلکہ میں اور آپ ہیں قدرت اور فطرت میں مالک کائنات نے جو توازن قائم کیا ہے اس کا ہمیں ادراک نہیں اور یہ اس عدم ادراک کا نتیجہ ہے کہ ہم نے توازن بگاڑ کرماحول اور زمین و دریا و سمندر ہر جگہ اپنے لئے خطرات کو خود کشی کی حد تک بڑھا دیا ہے قدرت اور فطرت کا جب توازن نہیں رہتا تو فطرت کی غضبناکی کہیں بارشوں اور سیلابوں کہیں خشک سالی اور قحط اور کہیں بیماریوں بانچھ پن اولاد سے محرومی کے اسباب فصلوں اور پھلوں کی تباہی کی صورت میں انسان سے انتقام لے رہی ہوتی ہے اور ہم مسلسل تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا میں ہر ایک منٹ میں دس لاکھ پلاسٹک کی بنی بوتلیں خرید ی جاتی ہیں جن میں بمشکل اسی ہزار دوبارہ استعمال میں لائی جاتی ہیں باقی ساری کی ساری زمین میں دفن اور سمندر میں غرق ہو جاتی ہیں ماہرین کے مطابق پلاسٹک کا کچرہ تحلیل ہونے میں ہزار سال لگادیتا ہے مزید چیزوں کا ذکر کریں تو دنیا میں ہر سال پانچ کھرب پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کی جاتی ہیں یہ استعمال کے دس پندرہ منٹ بعد پھر پھینک بھی دی جاتی ہیں جس کا قدرتی ماحول پر اثرات کا خود ہی اندازہ لگایئے ۔ پلاسٹک کے استعمال اور اس کی ہزار سال تک تلف نہ ہونے کے باعث یہ دائمی کچرہ ہزار سال ہمارے ماحول اور زمین کی زرخیزی کو نگل رہا ہوتا ہے اس طرح کی صورتحال میں خطرہ ہے کہ اگر یہی کچھ ہونا جاری رہا تو ساری دنیا میں غذائی پیداوار نصف سے بھی کم رہ جائے گی پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں تیزی کے ساتھ زرعی اراضی اور باغات کی جگہ کنکریٹ کی عمارتیں لے رہی ہیں جس کے باعث ایک جانب جہاں سبزہ ختم ہو رہا ہے وہاں دوسری جانب خوراک اور زرعی پیداوارمیں کمی آرہی ہوتی ہے جبکہ آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہوتا ہے بطور مسلمان رزق کے حوالے سے ہمارا ایمان مختلف ہے اور اس پر ہمیں کامل یقین بھی ہے اس کا مظاہرہ بھی اگرہم دیکھنا چاہیں تو روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجودغذا کے ملنے میں نظر بیھ آئے گا لیکن یہ سب اپنی جگہ لیکن اگر ہم بنی نوع انسان خوداپنے ہاتھوںاگررزق کے ذرائع اور اسباب کے ساتھ جوسلوک روا رکھ رہے ہیںاس کا کوئی مداوا نہیں یہ خود کردہ را علاج نیست کے زمرے میں آتا ہے آلودگی کے باعث سمندری حیات بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے یہی صورتحال رہی تو سمندری غذا بھی گھٹ کر نصف رہ جائے گی یا اس سے بھی کم یا پھرسراسر معدوم ہی ہو جائے پھر کیا ہو گا اس کا مکمل جواب تو شاید ہی کسی کے پاس ہو کم از کم ہم ایک سادہ حل اور قابل عمل تجویز سوچیں تو حل صرف یہی ہے کہ پلاسٹک کی اشیاء کا استعمال مکمل طور پرختم کرنے کی ضرورت ہے کم از کم اس میں کمی تو لائی جاسکتی ہے خواہ مخواہ ہر چیز میں پلاسٹک کا جو استعمال ہو رہا ہے اس میں کمی لانا پڑے گی پلاسٹک کی اشیاء کو پھینکنے کی بجائے بار بار اس کا استعمال کیا جائے اور پگھلا کر دوبارہ استعمال میں لانے کے قابل بنایا جائے تو بھی غنیمت ہو گی ورنہ موسمیاتی تبدیلی سے بھی بڑی تباہی کا خدانخواستہ شکار ہونا نوشتہ دیوار ہے ۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟