سول ایوارڈ پر سینیٹ قائمہ کمیٹی کے تحفظات

سینیٹ کمیٹی برائے سول ایوارڈز نے اپنے ایک حالیہ اجلاس میں جو آبزرویشن دی ہے وہ کس حد تک درست ہے اس پربات ضرور ہونی چاہئے ایک اخباری اطلاع کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سول ایوارڈز کے لئے امیدواروں کی اچیومنٹ کی تفصیلات طلب کر لی ہے ‘ کمیٹی کے چیئرمین رانا مقبول احمد کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں سول ایوارڈز کے لئے نامزدگیوں کے طریقہ کار اور میکنزم ‘ امیدواروںکی اچیومنٹس اور تفصیلات کا جائزہ لیاگیا ‘ چیئرمین نے کہا ایسے بے شمار لوگ ہیں جنہوںنے ملک کے لئے نمایاں کام کیا لیکن وہ رہ جاتے ہیں مگراثر ورسوخ والے شامل ہو جاتے ہیں اور دراصل یہی وہ نکتہ ہے جس نے یہ کالم لکھنے پرمجبور کیا ‘ اس حوالے سے کچھ ماضی بعیداورکچھ ماضی قریب کاتذکرہ لازم بن جاتا ہے ‘ تاہم اس موضوع پر چند گزارشات سے پہلے یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ راقم نہ صرف اس حوالے سے صوبائی سلیکشن کمیٹی کالگ بھگ پندرہ سولہ برس تک رکن رہا ہے ‘ اس لئے درون خانہ حقائق سے بہت حد تک واقفیت رکھنے کی بناء پر موضوع پراظہار خیال کرتے ہوئے یقینا کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہے ‘ اب چلتے ہیں ماضی بعید کی جانب سے جب پنجاب(لاہور) سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر وادیب ڈاکٹر رضوی (پورا نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا ہوں کہ اب وہ مرحوم ہوچکے ہیں) کو پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا تو یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ خود لاہور کے ادیبوں ‘ شاعروں نے اس فیصلے کو سخت ناپسند کیا اور باقاعدہ احتجاج کیا ‘ ماضی ہی کاایک اور واقعہ یہ بھی ہے کہ ضیاء الحق کے دورمیں کچھ لوگوں کو ایوارڈز دیئے گئے ‘ تاہم ایوارڈز کی تقسیم سے پہلے ہی طیارے والے حادثے میں ضیاء الحق جاں بحق ہوگئے اور عام انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو برسرا قتدار آئیں تواس فہرست میں سے چند افراد کے نام خارج کردیئے گئے ‘ ان میں سے جو چند نام یاد ہیں وہ تھے مشہور اور انتہائی سینئر صحافی زیڈ اے سلیری ‘الطاف حسن قریشی ‘ یہ تو چونکہ بھٹو دور ہی سے پیپلز پارٹی کے مخالف کیمپ سے تعلق رکھتے تھے سو ان کے ناموں کے اخراج کا جواز تو نظر آتا ہے مگرایک نعت خوان مرحومہ منیبہ شیخ اور پشاور کے ہمارے ریڈیو پاکستان کے ساتھی قاری فدا محمد مرحوم اور چند دیگر افراد جن کا سیاست سے تعلق تھا ہی نہیں ‘ ان کے ناموں کو نکالنے کی وجہ سمجھ میں نہ آسکی تھی ‘ اس پر زیڈ اے سلیری مرحوم نے ان تمام افراد کے ساتھ رابطہ کرکے انہیں صدر پاکستان کو پیپلزپارٹی کی حکومت کے اس فیصلے پراحتجاجی مراسلے صدر مملکت غلام اسحاق خان کو ارسال کرنے کو کہا ‘ اس ضمن میں مرحوم قاری فدا محمد کی جانب سے صدارتی سیکرٹریٹ کے ساتھ خط وکتابت راقم کرتا رہا ‘ زیڈ اے سلیری نے اس معاملے کو ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا تھا اور بالآخر یہ مقدمہ ان تمام لوگوں کے حق میں عدالت سے سامنے آیا ‘ اور ان کو صدرمملکت نے آنے والے 23مارچ کوتمغہ ہائے حسن کارکردگی دے کر پیپلزپارٹی حکومت کے غلط فیصلے کاازالہ کردیا ‘ کہ بقول شاعر
وہ مری سوچ سے خائف ہے تواس سے کہنا
مجھ میں اڑتے ہوئے طائر کو تہہ دام کرے
اب ذرا ان ایوارڈز کے طریقہ کار کا جائزہ لیتے ہیں ‘ ہر سال فروری ‘ مارچ کے مہینے میں ہرصوبے میںمحکمہ ثقافت اور دیگر متعلقہ محکموں کی جانب سے متعلقہ شعبوں میں نامور اور اہم کارکردگی کے حامل لوگوں کی نامزدگیاں منگوائی جاتی ہیں ‘ ان ناموں کاجائزہ ایک کمیٹی لیتی ہے ‘ اب اصولاً تو جو نام صوبائی کمیٹیوں نے اپنی سفارشات کے ساتھ مرکز کوبھیجے ہیں ‘ ان کو ایوارڈ ز کی منظوری لازمی ہونی چاہئے مگر کبھی کبھی”سفارشی” اندر ہی اندر حتمی فہرست میں جگہ بنا لیتے ہیں ‘ اس طرح کے ایک واقعے کا تو میں ذاتی طور پر گواہ ہوں کہ جب تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا اور جائزہ کمیٹی کا اسلام آباد میں اجلاس بلایاگیا تو فواد چوہدری نے مرکزی وزیر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اجلاس میں فیصلے کرنے کی بجائے چند سوالات اٹھائے اوراپنے نکتہ نظر کو اس میں شامل کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کرتے ہوئے آئندہ کے اجلاس میں حتمی فیصلہ کرنے کاحکم دیا ‘ ‘ مزے کی بات یہ ہے کہ ماڈل واداکارہ کو جب تمغہ امتیاز سے نوازا گیا تو اس پر خود شوبز کے شعبے کی جانب سے شدید اعتراضات کے ساتھ ساتھ ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ موصوفہ”پارٹی” کے کسی بڑے کی منظور نظرتھیں ‘ اسی طرح اینکر جن کا نام شامل کیاگیا ان کا حال ہی میں انتقال ہوگیا ہے وہ بھی تحریک کے ”بہی خواہ” کہلائے جاتے تھے’ اور یہ جوسینیٹ کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ ”اثر ورسوخ” والے شامل ہوجاتے ہیں تو محولہ واردات اس کی بہترین مثال ہے ۔اس کے برعکس ایسے افراد کے ساتھ جن کے نام صوبائی حکومت کی جانب سے بارباربھیجے جاتے ہیں ظاہر ہے وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ انہیں سول ایوارڈز دیئے جائیں ‘ بہت زیادتی ہے کہ ہرسال ان کے نام رد کر دیئے جاتے ہیں اور گزشتہ سال توایک اور طریقہ واردات اختیار کیاگیا کہ ہرسال ایواڈزپانے والوں کے ناموں کے ساتھ ان کے صوبوں کے نام بھی شائع کر دیئے جاتے ہیں ‘ مگر سال گزشتہ ایک خاص صوبے کودوسرے صوبوں کا حق بھی دے کر چھوٹے صوبوں سے ایوارڈ یافتگان کے نام کم کئے گئے ‘ اس لئے ضروری ہے کہ ہر صوبے کے لئے کوٹہ مختص کرکے صوبائی حکومتوں کی جانب سے سفارشات کے تحت ایوارڈز لازمی دیئے جائیں اورحتمی فہرست میں ”چھاتہ بردار”سفارشیوں کوکوئی جگہ نہ دی جائے ۔
صائب دوچیزمی شکند قدرشعررا
تحسین نا شناس و سکوت سخن شناس

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے