بڑھتی ہوئی مہنگائی

ادارہ شماریات کے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق حالیہ ہفتے کے دوران ملک میں ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں0.48فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ سالانہ بنیادوں پر ہفتہ وارمہنگائی کی شرح30.16فیصد رہی ہے۔ملک میں گزشتہ چھ ہفتے سے مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔دریںاثناء ایک حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اکتوبر کے مہینے میں گزشتہ سال اکتوبر کے مقابلے میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں36.2فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ملک کے ہائوسنگ شعبے میں مکانوں کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات اور کرایوں میں تقریباً 12 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔کپڑوں اور جوتوں کی قیمتوں میں18.3فیصد اضافہ ہوا جبکہ ہوٹل اور ریستوران میں کھانے پینے اور قیام کے اخراجات میں 30.4 فیصد اضافہ ہوا۔ملک میں ٹرانسپورٹ کے اخراجات، جن میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں اور کرایے شامل ہیں، میں سب سے بڑا اضافہ دیکھا گیا اور اکتوبر کے مہینے میں گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے کے مقابلے میں50.3فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔تعلیمی اخراجات میں11فیصد اور صحت پر اٹھنے والے اخراجات میں16.2فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔رواں مالی سال کے بجٹ میں بھی زیادہ سے زیادہ مہنگائی کا تخمینہ گیارہ فیصد لگایا گیا تھا لیکن اب عالم یہ ہے کہ اس کی شرح تخمینے سے دوگنا سے بھی بڑھ چکی ہے وزارت خزانہ بجائے اس کے کہ مہنگائی میں کمی کے لئے کوئی جتن کرے ان کاکام مہنگائی میں اضافے کا مژدہ سنانا رہ گیا ہے جس کے وزیر خزانہ بننے سے معیشت کی بہتری اور مہنگائی میں کمی کی امید کی جا رہی تھی اس جادوگر کاجادو بھی نہ چل سکا حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی بھی مہنگائی اور شدید مصنوعی مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کے اولاً کلی فائدہ عوام کو دینے پرحکومت تیار نہیں اور ان کی قیمتوں میں کمی ہونے کے باوجود اثرات عوام تک منتقل نہیںہوتے عوام آخرکسے دہائی دیں کس سے فریاد کریں۔
شرح سود میں تیسری مرتبہ اضافہ
اب تو یہ معمول ہی بن گیا ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری کی پالیسی اعلان کے تحت شرح سود میں اضافہ ہی کرتی ہے۔حسب دستور نئی مانیٹری پالیسی میں بھی شرح سود کو ایک فیصد بڑھایا گیا ہے جس کے بعد سود کی شرح15 فیصد سے بڑھ کر16فیصد ہوگئی ہے۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ شرح سود میں اضافے کا مقصد افراط زر میں اضافے اور مالیاتی استحکام کو لاحق خطرات کو روکنا ہے۔ قومی مرکزی بینک نے امید ظاہر کی کہ شرح سود میں اضافے سے پائیدار بنیادوں پر معیشت ترقی کی راہ پر ہموار ہوجائے گی۔ مانیٹری پالیسی کے مطابق مہنگائی کا دبائو مسلسل اور توقع سے زیادہ ہے،اکتوبر میں سیمنٹ، پٹرولیم مصنوعات اور گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوا۔ سیلاب سے فصلوں کو نقصان پہنچا جس سے غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، فیصلے کا مقصد بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے امر واقع یہ ہے کہ یہ شرح سود خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ اور بلند ہے شرح سود میں اضافہ ایسے وقت کیاگیا ہے جب معاشی سرگرمیاں بدستور دبائو کاشکار ہیں زیادہ شرح سود کا نقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے قرض مہنگا ہو جاتا ہے اور ملک کا کاروباری طبقہ کاروبار کی ترقی واستحکام کے لئے قرض لینے سے کتراتا ہے بلکہ اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ بلند شرح سود پر قرض لے کر کاروبار چلائے۔جس کا نتیجہ کاروباری سرگرمیوں میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے کاروباری سرگرمیوں میں کمی سے ہر شعبہ زندگی پر اثر پڑتا ہے بلند شرح سود صنعتی کاروباری ترقی کی نفی ہے ۔رواں سال شرح سود میں یہ تیسرا مسلسل اضافہ ہے ملک میں معاشی اور صنعتی ترقی اور کاروبار کے فروغ کا تقاضا ہے کہ شرح سود میں کمی لائی جائے ۔
ماحول کی تباہی
حیات آباد میں صنعتی زونز کے کارخانوں سے زہریلے دھوئیں کا اخراج ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہاہے جس کے باعث حیات آباد کے مکین بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں حیات آباد کے شہریوں کے مطابق ان صنعتوں سے اٹھنے والے دھوئیں کے باعث حیات آباد میں دھوئیں کے کالے بادلوں کا راج معمول بن گیا ہے اسی طرح شہری کھانسی ، سینے اور جلد کی مختلف بیماریوں کا شکار بھی ہورہے ہیں جس کی بڑی وجہ متعلقہ اداروں ضلعی انتظامیہ اور انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی جانب سے ان کارخانوں کی خلاف کوئی کارروائی نہ ہونا ہے۔صوبے کے اہم اور جدید بستی کو جس طرح صنعتی آلودگی نے گھیر رکھا ہے اور متعلقہ حکام جس طرح کی ملی بھگت سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اسے دیکھ کر ماحولیاتی آلودگی کو قابو کرنے والے ادارے کی بندش ہی کی تجویز دی جا سکتی ہے اس ادارے کے وجود کا کوئی جواز ہوتا تو یہ سب کچھ نہ ہو رہا ہوتا۔صوبائی حکومت کو اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کے زیر انتظام محکمے کی کارکردگی کیا ہے اور وہ باربار کی شکایات اور توجہ دلانے کے باوجود آلودگی پھیلانے کے ذمہ دار عناصر کو قانون کے مطابق آلودگی سے نمٹنے اور آلودگی میں کمی لانے کے اقدامات پر عمل درآمد کروانے میں ناکام کیوں ہے؟۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس سنگین خلاف ورزی کا سختی سے نوٹس لیا جائے گا اور حیات آباد و گرد ونواح کی فضا کو آلودہ کرنے کے ذمہ دار کارخانوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ان کو ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کرنے کا پابند بنایا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت