فیصلہ کن موڑ

وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو اب پنڈی سے الیکشن کی تاریخ نہیں ملے گی۔وزیرداخلہ نے کہا کہ عمران خان کو اب پنڈی سے الیکشن کی تاریخ نہیں ملے گی، آپ کو اسٹیبلشمنٹ الیکشن کی تاریخ نہیں لے کر دے گی، یہ بات اب پرانی ہوگئی، آپ کے ان سیاسی اجتماعات کے ذریعے انتخابات کی تاریخ اسٹیبلیشمنٹ سے ملنا ہوتی تو مل چکی ہوتی، عمران خان کو مشورہ دیتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کی بجائے سیاسی قیادت سے بات کریں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان سیاست دان بنیں، ضد چھوڑیں، سیاستدانوں میں واپس آئیں، پی ڈی ایم سے ملیں۔ مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری سے بھی ملیں، عمران خان ‘میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے ملنا چاہیں تو وہ بھی انکار نہیں کریں گے۔ میں بھی اس سلسلے میں عمران خان کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں ڈیڈ لاک بات چیت سے ختم ہوتے ہیں عمران خان پارلیمنٹ میں واپس آئیں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اب اپنے آئینی رول سے باہر نہیں آئے گی، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ وہ سیاسی کردار ادا نہیں کریں گے، آرمی چیف عاصم منیر کا بھی کردار تھا کہ فوج کا سیاسی رول ختم ہونا چاہیے ، آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ ختم کرنے کے حوالے سے ادارے کو عمل کرنا ہے۔سیاسی مخالفین کے حوالے سے تندوتیز لہجے کی شہرت رکھنے والے وزیر داخلہ نے تحریک انصاف کی قیادت کو جوسیاسی پیشکش کی ہے وہ نہایت موزوں اورقابل عمل ہے جس سے جہاں ملک میں سیاسی معاملات کے سدھارنے کے عمل کاآغاز ہوگاکشیدگی میں کمی آسکتی ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کوپوری طرح اورمستقلاً ان کے رول تک محدود کرنے کا اس سے موزوں اور بہترین وقت سیاستدانوں کے ہاتھ نہیں آسکتا یہ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے دور رہنے کاخود سے وعدہ کیاہے لیکن اگرسیاسی معاملات سیاستدانوں کے درمیان اور سیاسی طریقوں سے طے نہ ہوئے تواسٹیبلشمنٹ کاراستہ نہ صرف کھلا رہے گا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ بادل ناخواستہ بھی سیاسی معاملات پراثر انداز ہوسکتے ہیں اب یہ اسٹیبلشمنٹ پر منحصر نہیں بلکہ سیاستدانوں پر منحصر ہوگا کہ وہ اپنے معاملات خود ہی چلا سکتے ہیں یا پھر اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے کی پرانی روش برقراررہتی ہے یہ درست ہے کہ اپنے بیانیہ اور موقف میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان بہت دور چلے گئے ہیں اور ان کی واپسی و سیاسی عمائدین سے نشست مشکل ہویہ مشکل اپنی جگہ لیکن سیاستدانوںسے نشست اور ملاقاتیں بطور سیاستدان ان کے لئے کوئی انہونی بات نہیں وہ ماضی میں بھی سیاستدانوں سے ملتے رہے ہیں ایک دوسرے کو اسی طرح گھسیٹنے اور چور قرار دینے والی ماضی کی بدترین حریف جماعتیں پی پی پی اور مسلم لیگ نون اگرشیر وشکر ہو سکتی ہیں خود عمران خان پرویز الٰہی کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں تو پھر باقی سیاسی قائدین سے مذاکرات میں کیاامر مانع ہوسکتا ہے ۔ اس کی ابتداء تحریک انصاف کے معتدل سیاسی عمائدین کی طرف سے ہونی چاہئے جو اس طرح کے معاملات سے نکلنے اور سیاسی مذاکرات و معاملت میں ملکہ رکھتے ہیں دھیرے دھیرے حالات کو اب معمول پرلانے اور سیاست کو دشمنی کی بجائے سیاست کے طور پرچلانے کااب وتیرہ اختیار کیاجانے لگے تو سیاسی حالات کے معمول پرآنے میں وقت نہیں لگے گا حکومتی دعوت پراسمبلی میں واپسی کے لئے تحریک انصاف کے لئے یہ زریں موقع ہے اب تک فریقین نے جو جودائو پیچ اختیارکرنے تھے کر چکے اب ہر دو فریقوں کے پاس دائولگانے کے لئے زیادہ کچھ باقی نہیں سوائے اس کے کہ اب حالات کو معمول پر لا کر آئندہ کے عام انتخابات کی تیاری کی جائے ۔ تحریک انصاف سیاسی طور طریقے اختیار کرکے اوردبائوڈالنے کے حربے سے گریز کرکے انتخابات کی تاریخ کو پہلے لانے میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے ویسے بھی اب انتخابات میںزیادہ دن نہیں رہے ۔ سیاستدان مل کر بیٹھیں گے توڈیڈ لاک کا خاتمہ اور کچھ دو اور کچھ لوکا معاملہ ناممکن نہیں حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ سیاستدانوں کا منقطع رابطہ اب بحال ہونا چاہئے سیاسی مخالفین سے الجھنے اور سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کے نتائج سب کے سامنے ہیں جس میں سوائے انتشار کے کچھ حاصل نہیں ہوتا الٹاجمہوری سوچ اور جمہوری عمل نقصان سے دو چار ہوتی ہے اور سیاسی جماعتوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے جمہوری سیاسی نظام میں پارلیمان سیاستدانوں کا اعلیٰ اور مناسب فورم ہے اب اس فورم سے رجوع اوراسی کے ذریعے جملہ معاملات کا حل نکالنے کی ضرورت ہے ۔جمہوریت میں حزب اختلاف کے کردارکی اہمیت کونظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ نظام حکومت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف سے بھی جمہوری کردار کا مقتاضی ہوتا ہے اگرپارلیمان کو یوں یکطرفہ نہ بنا دیا جاتا توشاید آج حالات مختلف ہوتے ۔ اب بھی اس کا ادراک ہونا چاہئے ۔ سیاسی قیادت کو معاملہ فکری اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ان حالات میں جبکہ ملکی معاملات اور سیاسی عدم ہم آہنگی کے شدید اثرات سے معیشت بھی متاثر ہوئی ہے معاشی مسائل میں شدت اور سماج میں بے یقینی کی کیفیت بڑھ رہی ہے پارلیمان کا ادارہ ہی ان مشکلات کا حل پیش کر سکتا ہے جس کا تقاضا ہے کہ پارلیمان کے شراکت دار اور جملہ سیاسی جماعتیں اپنے رویے اور جذبات میں تبدیلی لائیں عناد کی بجائے اعانت اور تعاون اور ایک دوسرے کو موقع دینے کارویہ اختیار کیا جائے اور ملکی معاملات کو احسن طریقے سے آگے بڑھانے کی ذمہ داری پوری کی جائے۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت