سیاسی کلچر یا معاشرے کی تباہی

پہلے پہل جب سیاسی گفتگو شائستگی کے ساتھ ہوا کرتی تو اس وقت بھی مختلف جگہوں پر ”یہاں سیاسی گفتگو منع ہے” کی تختی لگی دکھائی دیتی تھی حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب شاعر انقلاب حبیب جالب ہویا سیاسی اتحاد بنانے کے بابا نواب زادہ نصر اللہ خان جیسے چنیدہ الفاظ مگر نہایت گہرے الفاظ میں شعروسخن سے ہو یا نثری تحریر و تقریر کرنے کا ملکہ رکھنے والے سیاست پر بات کیا کرتے تھے جو مدلل اور مہذب ہی نہیں ہوا کرتی تھی موثر اور قابل قبول بھی لہجہ بھی مناسب الفاظ بھی موزوں شعر کا وزن بھی برابر اور تخیل و تنقید کا کاری وار غرض ان کی گفتگو پریس کانفرنس اور سٹیج پر تقریریں سبھی کا ایک معیار اور انداز ہوا کرتا تھا وہ کوئی زیادہ پرانا وقت نہیں تھا مگرجب سے سیاست جدید اور آج کل کے بعض رہنما سٹیج سنبھالنے لگے تو سیاست واہیات اور گالی کے ہم معنی بن گئی سوشل میڈیا اور اس سے متاثرہ نوجوان نسل نے سارے اقدار ڈبو دیئے کچھ وائرل ویڈیو پر آج کل جس طرح کے ٹریڈ جسے اگر گالم گلوچ کا بازار گرم قراردیاجائے تو درست ہو گا نوجوان لڑکیاں کیمرے میں بلا سوچے سمجھے جو بول گئیں سو بول گئیں ان کو جتنا بھی الزام دیا جائے گنجائش ہے مذمت بھی کی جانی چاہئے ان واہیات کو دہرانا اور پھر ان کو سنجیدہ افراد علمائے کرام جیسے لوگ مذہبی جماعتوں کے کارکنان کا اس پر ٹرینڈ چلانا بہتان تراشی و الزامات اور جواب درجواب کے اس سلسلے کی سمجھ نہیں آتی آخر برائی کے تذکرے اور ان کی باتوں کو سٹیج پر دہرا کر اپنی زبانیں آلودہ کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ برا ہو اس سیاست کا اور اس طرح کی گفتگو اور موضوعات کو سیاسی قرار دینے والوں اور اس پر گفتگو کرنے والے ہوشمندوں کا جوبرائی کو برا سمجھتے ہوئے اس کو پھیلانے والوں میں شامل ہوجاتے ہیں گھٹیا گفتگو اور بیان بازی پر حاضرین و سامعین اور اہل جلسہ کا خوش ہونا ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں ایسی سیاسی جماعتوں کی صفوں میں جن سے امر بالمعروف کی توقع ہونی چاہئے ان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے لیڈر کی چسکے دار گفتگو اور مخالفین کا مذاق اڑانے پر حظ اٹھاتے ہیں اور اس کو برا نہیں سمجھتے بلکہ مسکت جواب گردانتے ہیں ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔ بابائے قوم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹواور مریم نواز تک کسی کو نہیں بخشا گیا۔ پارلیمان میں ٹریکٹر ٹرالی بھی ایک خاتون رکن اسمبلی قرار دی گئیں جبکہ خصوصی نشستوں پر کامیاب ہونے والی خواتین کے بارے میں جو رائے دی جاتی ہے وہ ناقابل تحریر و ناقابل تذکرہ ہے سیاستدان جس طرح ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو جن الفاظ والقابات سے یاد کرتے ہیں سٹیج پر اور جلسوں میں جو زباں استعمال ہوتی ہے سبھی کو معلوم ہے سوشل میڈیا پر جو ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں اور خواتین و لڑکیاں اس میں جس قسم کی بازاری زبان استعمال کرتی ہیں محض سیاسی مخالفت پر عصمت و آبرو کی پامالی ہو رہی ہوتی ہے معلوم نہیں یہ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ جو ان محبوب رہنما اقتدار میں آئیں گے یا جو اقتدار میں آتے جاتے ہیں اور جو آئے اور چلے گئے ان سے ان کو کیا ملا یہ بس جلسوں میں آکر ہاتھ ہلاتے ہیں اور پھر جب رخصت ہوں تو کارکنوں کی طرف گردن موڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے مگر ہمارے لوگ ہیں کہ ان کی محبت میں دشمنیاں تک مول لیتے ہیں گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہوئے ان ارکان دولت نے ملک کو جس طرح اجاڑ اور ویران بنا دیا ہے اس کا تو سوال ہی کون کرے ہر طرف اندھی تقلید کا دور دورہ ہے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ جائز ناجائز جس طریقے سے بھی اقتدار ملنا چاہئے ملک کا جو بھی حال ہو اپنی حکومت شان و شوکت اور شاہی پروٹوکول ملنا چاہئے۔کس قسم کا لباس سوٹ ‘ چشمہ ‘ گھڑی اور پرس و دیگر لوازمات اور کس شاہانہ انداز میں سیاسی رہنما عوام کے سامنے آتے ہیں مگر مجال ہے کہ کسی کارکن کی توجہ اس پر جائے کہ ان کے لیڈروں کا بودو باش اور انداز و ادا کیا ہے اور کارکن و عام آدمی کس حال میں ہے۔ سوشل میڈیا اور سیاسی پنڈال میں جو ماحول نظر آتا ہے وہ عوام کو دکھانے کی حد تک ہے وگر نہ تمام ترطوفان بدتمیزی کے باوجود یہ متحارب سیاسی بھونپو اور پارٹی نمائندے درون خانہ آپس میں ملے ہوتے ہیں ان کی باہم رشتہ داریاں بھی ہیں اور وہ ایک دوسرے کے عزیز و اقارب بھی ہیں اور ایک دوسرے سے مزید رشتہ اور رابطہ استوار کرنے کے مواقع بھی بند نہیں ہوتے یہاں عوام میں تو مخالف سیاسی جماعت کا کارکن اور اس کا خاندان نفرت ہی کی علامت گردانا جاتا ہے اس سادہ لوحی ہی کا تو سیاستدان فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اس پر بھی سوچیں کہ سیاستدانوں کے ناشائستہ بیانات کی وجہ سے سوشل میڈیا کی گالم گلوچ میں پڑنے کا ان کا رویہ مناسب ہے ؟ گالم گلوچ اور عدم برداشت کی سیاست کا ویسے تو الزام ہر کوئی دوسرے کو دے رہا ہوتا ہے اور اس کلچر کو مخالف سیاسی جماعت سے جوڑ کر خود کی پارسائی کا تاثر دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا الزام کسی ایک سیاسی جماعت کو دینا درست نہیں بلکہ اسی کلچر کو عام کرنے کی ذمہ داری میں ملک کی کم و بیش ساری ہی سیاسی جماعتیں شریک ‘ ذمہ دار اور قصور وار ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سیاسی شائستگی اقدار کا احترام ہماری روایت تھی لیکن اب سب کچھ برعکس ہے گالم گلوچ کا یہ کلچر سیاست سے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اور معاشرہ سیاسی طور پر ہی تقسیم کا شکار نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہی تقسیم کا شکار ہے جو لوگ اپنے بچوں کو اس سیلاب سے بچانے کی فکر میں ہیں وہ نہایت مشکل میں ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو اس سے کیسے بچائیں ۔ اساتذہ کرام’ شعراء و ادباء ‘ علمائے کرام ‘ دانشور جیسے طبقات بھی اب بدقسمتی سے وہ اثر نہیں رکھتے جن کی بات کبھی سنی جاتی تھی اور ان کی اپنی بھی کوشش ہوا کرتی تھی کہ وہ معاشرے میں ا صلاح ادب و اقدار کی بات کریں معاشرے میں رواداری کو فروغ ملے ایک سیلاب ہے جو سب کچھ بہا لے جانے کو ہے اس کے آگے بند باندھنا کسی ایک کے بس کی بات نہیں پورے معاشرے کو آگے آنا ہوگا ورنہ یہ معاشرہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا اور نتیجہ سب کو بھگتنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے