صوبے میں مالی بحران مگر۔۔۔۔

صوبے میںمالی بحران کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کے مطابق سرکاری ملازمین کے لئے تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگیوں کے حوالے سے سنگین صورتحال نے ایک بار پھر جنم لے لیا ہے اور گزشتہ ستمبر کی طرح ایک بار پھر سرکار کو اپنے حاضر سروس اور سابق (ریٹائرڈ) ملازمین کے لئے ادائیگیاں ممکن نہیں رہی ہیں ‘ جس کی وجہ وفاق سے محاصل منتقلی میں تاخیر اور پن بجلی خالص منافع کی عدم ادائیگی کو قرار دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے صوبہ شدید مالی بحران سے دو چار ہو چکا ہے ۔ اس حوالے سے ترقیاتی فنڈز اور جاری اخراجات پرکٹ لگانے کے بعد ملازمین کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا ہے مگر صوبے کی اس نازک مالی صورتحال کے باوجود یہ خبریں یقینا حیرت کا باعث ہیں کہ سرکاری حکام کے لئے ہرسال نئی گاڑیوں کی خریداری نے کفایت شعاری کی پالیسی ناکام بنا دی ہے اور ہر سال نئی گاڑیوں کی خریدنے کی وجہ سے سیکرٹریٹ میں اب پارکنگ کے مسائل بھی جنم لے چکے ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک طرف ملازمین کو ماہانہ تنخواہیں اور پنشن کی رقم نہیں ہے ‘ جاری اخراجات اور ترقیاتی فنڈز پر کٹ لگائی جا رہی ہے تو حکام کے لئے ہر سال لگژری گاڑیوں کے ریوڑ خریدنے کی کیا تک ہے ‘ صوبائی محاصل کی ادائیگی میں وفاق کی جانب سے تاخیری حربوں کو کسی بھی صورت میں درست قرار نہیں دیا جا سکتا ‘ مگر ملکی خزانے کی جو صورتحال اس وقت ہے اور وفاق کے پاس خود اپنے بعض اداروں کے ملازمین کے لئے تنخواہیں اور پنشن ادا کرنے کے لئے رقم نہیں ہے تو وہ صوبے کو اس کا حق کہاں سے لا کر دے ‘ مگر ایسی صورت میں حکومتوں کے اللوں تللوں سے ہاتھ کھینچنے کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے نہیں تھی ‘ اس لئے صوبے کے افسران کے لئے ہر سال نئی گاڑیوں کی خریداری غیر ضروری اور قومی خزانے پربوجھ ہے ‘ جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے ۔
کم آمدنی والوں کے لئے قرضہ سکیم
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی(ای سی سی) نے کم آمدنی والے افراد کو قرضوں کی فراہمی کے لئے کریڈٹ گارنٹی ٹرسٹ سکیم متعارف کرانے کی منظوری دے دی ہے ‘ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی صدارت میں کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی معاشی صورتحال اور مختلف منصوبوں پر تفصیلی بات چیت کی گئی اور کم آمدنی رکھنے والوں کے لئے قرضوں کی فراہمی کے لئے کریڈٹ گارنٹی ٹرسٹ سکیم متعارف کرانے کی منظوری دی۔ جہاں تک محولہ منصوبے کا تعلق ہے ابھی اس کے خدوخال واضح نہیں ہیں ‘ تاہم ایک اہم بات جو اس ضمن میں کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ماضی میں مختلف حکومتوں کے ادوار میں اس قسم کے جتنے بھی منصوبے سامنے آتے رہے ہیں ان میں مبینہ بدعنوانیوں کی خبریں عام تھیں ‘ یعنی قرض کے حصول سے لے کر قرضوں کی واپسی تک ہر مرحلے پر سوالیہ نشان ثبت رہے ہیں اس لئے نئی سکیم کو ہر قسم کی بدعنوانی سے پاک رکھنے کی کوشش کی جائے۔
تحقیقاتی رپورٹوں کی ”گمشدگی”؟
صوبے میںمختلف محکموں کے اندر مبینہ بدعنوانیوں کے حوالے سے انکوائریز کا ریکارڈ غائب ہونے کی اطلاعات یقیناً چشم کشا ہیں ‘ خبروں کے مطابق بدعنوانی میں ملوث افسران اورملازمین کے خلاف 90فیصد انکوائریز اور دیگر خریداریوں کا ریکارڈ متعلقہ فائلوں سے غائب ہو چکا ہے ‘ اطلاعات کے مطابق ایک ڈائریکٹر اور ایک ایم ایس پر رشوت لینے کے الزامات ثابت ہوچکے تھے ‘ جبکہ اربوں کی انکوائریز پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ‘ جبکہ ایک اور خبر کے مطابق محکمہ صحت کے دس افسروں کے خلاف خریداری سکینڈل میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔ جہاں تک بدعنوانیوں کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹس کے غائب ہونے کا تعلق ہے یہ ا قدامات ملی بھگت کے بغیر نہیں کئے جا سکتے اور ان میں متعلقہ حکام کے ساتھ ساتھ ماتحت عملے کی ملی بھگت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ‘ جو اس بات کا متقاضی ہے کہ بدعنوانیوں کو چھپانے میں ملوث”بدعنوان” افراد کو بھی بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
اے این پی رہنماء کو دھمکیاں
اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری اور ممبر صوبائی اسمبلی سردار حسین بابک کو دہشت گردوں کی جانب سے براہ راست دھمکی دینے کے پارٹی کی جانب سے دعوے یقیناً قابل تشویش قرار دیئے جا سکتے ہیں ‘ اس حوالے سے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی ایک ٹویٹ میں سردار حسین بابک کو دھمکیوں کا ذکر کیا گیا ‘ جس کے بعد اصولی طور پر صوبائی حکومت کو سردار حسین بابک کی سکیورٹی بڑھانے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ‘ بدقسمتی سے ملک میں سیاسی قائدین اور خصوصاًصوبہ خیبر پختونخوا میں اے این پی کے رہنمائوں کے ساتھ ماضی میں دہشت گردی کے جوواقعات رونما ہوئے ہیں ‘ جن میں پارٹی کے اہم رہنما اور ان کی اولاد تک کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ‘ ان واقعات کے تناظر میں حالیہ دھمکیوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ‘ سیاسی مخالفین کو سیاست کے میدان میں سیاسی طور طریقوں سے شکست دی جائے تو اس پر کبھی سوال نہیں اٹھ سکتا مگر بغیر کسی وجہ کے صوبے میں چند مخصوص جماعتوں یا رہنمائوں کو ڈرا دھمکا کر ان کے موقف سے پیچھے ہٹانے کی کسی کوشش کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا ‘ صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ نہ صرف وہ ان الزامات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائے ‘ سردار حسین بابک کو ضروری سیکورٹی فراہم کرکے بلکہ دھمکیاں دینے والوں کو قانون کی گرفت میں لا کر کیفر کردار تک پہنچائے۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت