نیک اور دیندار کی موت

نیک اور دیندار کی موت

اللہ تبارک و تعالیٰ ملک الموت سے فرماتا ہے کہ تو میرے دوست کے پاس جا میں نے اسے آسمانی سختی سے ہر طرح آزما لیا ہے ہر ایک حالت میں اسے اپنی خوشی میں خوش پایا،تو جا اور اسے میرے پاس لے آ کہ میں اسے ہر طرح کا آرام و عیش دوں۔ملک الموت اپنے ساتھ پانچ سو فرشتوں کو لے کر چلتے ہیں ان کے پاس جنتی کفن،وہاں کی خوشبو اور ریحان کے خوشے ہوتے ہیں جس کے سر پر بیس رنگ ہوتے ہیں ہر رنگ کی خوشبو الگ الگ ہوتی ہے۔سفید ریشمی کپڑے میں اعلیٰ مشک بہ تکلف لپٹی ہوتی ہے۔ یہ سب آتے ہیں،ملک الموت تو اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرشتے اس کے چاروں طرف بیٹھ جاتے ہیں۔ ہر ایک کے ساتھ جو کچھ جنتی تحفہ ہے وہ اس کے اعضاء پر رکھ دیا جاتا ہے اور سفید ریشم اور مشک اس کی تھوڑی تلے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس کی روح کبھی جنتی پھولوں سے کبھی جنتی لباسوں سے کبھی جنتی پھلوں سے اس طرح بہلائی جاتی ہے جیسے روتے ہوئے بچے کو لوگ بہلاتے ہیں اس وقت اس کو حوریں ہنس ہنس کر اس کی چاہت کرتی ہیں۔روح ان مناظر کو دیکھ کر بہت جلد جسمانی قید سے نکل جانے کا قصد کرتی ہے۔
ملک الموت فرماتے ہیں ہاں! اے پاک روح بغیر کانٹے کی بیریوں کی طرف اور لدے ہوئے کیلوں کی طرف اور لمبی لمبی چھائوں کی طرف اور پانی کے جھرنوں کی طرف چل۔واللہ ماں جس قدر بچے پر مہربان ہوتی ہے اس سے بھی زیادہ ملک الموت اس پر شفقت و رحمت کرتا ہے اس لیے کہ اسے علم ہے کہ یہ محبوب خدا ہے،اگر اسے ذرا سی بھی تکلیف پہنچی تو میرے رب کی ناراضگی مجھ پر ہو گی۔بس اس طرح اس روح کو اس جسم سے الگ کر لیتا ہے جیسے گندھے ہوئے آٹے میں سے بال۔
ملک الموت کے روح کو قبض کرتے ہی روح جسم سے کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ عز و جل تجھے جزائے خیر دے تو خدا کی اطاعت کی طرف جلدی کرنے والا اور خدا کی معصیت سے دیر کرنے والا تھا۔ تو نے خود بھی نجات پائی اور مجھے بھی نجات دلوائی۔ جسم بھی روح کو ایسا ہی جواب دیتا ہے۔زمین کے وہ تمام حصے جن پر وہ عبادت خدا کرتا تھا اس کے مرنے سے چالیس دن تک روتے ہیں۔اسی طرح آسمان کے وہ کل دروازے جس سے اس کے نیک اعمال چڑھتے تھے اور جن سے اس کی روزیاں اترتی تھیں اس پر روتے ہیں۔
اسی وقت وہ پانچ سو فرشتے اس جسم کے ارد گرد کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کو نہلانے میں شامل رہتے ہیں انسان اس کی کروٹ بدلے،اس سے پہلے خود فرشتے بدل دیتے ہیں اور اسے نہلا کر انسانی کفن سے پہلے اپنا ساتھ لایا ہوا کفن پہنا دیتے ہیں اور ان کی خوشبو سے پہلے اپنی خوشبو لگا دیتے ہیں اور اس کے گھر کے دروازے سے لے کر اس کی قبر تک دو رخ صفیں باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے لئے استغفار کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت شیطان اس زور سے رنج کے ساتھ چیختا ہے کہ اس کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور کہتا ہے کہ میرے لشکریو! تم برباد ہو جائو ہائے یہ تمہارے ہاتھوں کیسے بچ گیا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ تو معصوم تھا۔
جب اس کی روح کو لے کر ملک الموت چڑھتے ہیں تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ستر ہزار فرشتوں کو لے کر اس کا استقبال کرتے ہیں۔ہر ایک اسے جداگانہ بشارت خداوندی سناتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی روح عرش خدا کے پاس پہنچتی ہے وہاں جاتے ہی سجدے میں گر پڑتی ہے۔ اسی وقت جناب باری تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے کہ میرے بندے کی روح کو بغیر کانٹوں کی بیریوں میں اور تہ بہ تہ کیلوں کے درختوں میں اور لمبے سایوں میں اور بہتے پانیوں میں جگہ دو۔ پھر جب اسے قبر میں رکھا جاتا ہے تو دائیں طرف نماز کھڑی ہو جاتی ہے، بائیں جانب روزہ کھڑا ہو جاتا ہے، سر کی طرف قرآن آ جاتا ہے، نمازوں کو چل کر جانا پیروں کی طرف ہوتا ہے۔ ایک کنارے صبر کھڑا ہو جاتا ہے۔ عذاب کی ایک گرد لپکتی آتی ہے لیکن دائیں جانب سے نماز اسے روک دیتی ہے کہ یہ ہمیشہ چوکنا رہا اب اس قبر میں آ کر ذرا راحت پائی۔وہ بائیں طرف سے آتی ہے، یہاں سے روزہ یہی کہہ کر اسے آنے نہیں دیتا۔ سرہانے سے آتی ہے یہاں سے قرآن اور ذکر یہی کہہ کر آڑے آتے ہیں۔ وہ پیروں کی طرف سے آتی ہے یہاں سے اس کا نمازوں کیلئے چل کر جانا اسے روک دیتا ہے۔ غرض چاروں طرف سے محبوب کے لیے روک ہو جاتی ہے اور عذاب کو کہیں سے راہ نہیں ملتی وہ واپس چلا جاتا ہے۔ اس وقت صبر کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ اگر تم سے ہی یہ عذاب دفع ہو جائے تو مجھے بولنے کی کیا ضرورت؟ ورنہ میں بھی اس کی حمایت کرتا اب میں پل صراط پر اور میزان کے وقت اس کے کام آئوں گا۔ اب دو فرشتے بھیجے جاتے ہیں ایک کو نکیر کہا جاتا ہے دوسرے کو منکر۔یہ اچک لے جانے والی بجلی جیسے ہوتے ہیں۔ ان کے دانت سیاہ جیسے ہوتے ہیں۔ ان کے سانس سے شعلے نکلتے ہیں۔ ان کے بال پیروں تلے لٹکے ہوتے ہیں۔ ان کے دونوں کندھوں کے درمیان اتنی اتنی مسافت ہوتی ہے۔ ان کے دل نرمی اور رحمت سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ میں ہتھوڑے ہوتے ہیں کہ اگر قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر جمع ہو کر اسے اٹھانا چاہیں تو نا ممکن ہے۔ وہ آتے ہی اسے کہتے ہیں اٹھ بیٹھ۔ یہ اٹھ کر سیدھی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ اس کا کفن اس کے پہلو پر آ جاتا ہے۔ وہ اس سے پوچھتے ہیں! تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟
صحابہ رضی اللہ عنہم سے رہا نہ گیا،انہوں نے کہا یارسول اللہ! ایسے ڈرائونے فرشتوں کو کون جواب دے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت” یثُبِتُ اللہُ” کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ وہ بے جھجک جواب دیتا ہے کہ میرا رب اللہ وَحدَہ لَا شرِیکَ لَہ ہے۔ جو فرشتوں کا بھی دین ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو خاتم النبیین ہیں۔
وہ کہتے ہیں آپ نے صحیح جواب دیا اب تو وہ اس کے لیے اس کی قبر کو اس کے دائیں سے اس کے بائیں سے اس کے آگے سے،اس کے پیچھے سے،اس کے سر کی طرف سے،اس کے پائوں کی طرف سے چالیس چالیس ہاتھ کشادہ کر دیتے ہیں، وہ دو سو ہاتھ کی وسعت کر دیتے ہیں اور چالیس ہاتھ کا احاطہ کر دیتے ہیں اور اس سے فرماتے ہیں اپنی نظریں اوپر اٹھا۔ یہ دیکھتا ہے کہ جنت کا دروازہ کھلا ہوا ہے، وہ کہتے ہیں اے خدا کے دوست! چونکہ تو نے خدا کی بات مان لی ہے تیری منزل یہ ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، اس وقت جو سرور و راحت اس کے دل کو ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے اب اپنے نیچے دیکھ۔ یہ دیکھتا ہے کہ جہنم کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ دیکھ اس سے خدا نے تجھے ہمیشہ کے لیے نجات بخشی۔ پھر تو اس کا دل اتنا خوش ہوتا ہے کہ یہ خوشی ابدالآباد تک ہٹتی نہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے لیے ستر دروازے جنت کے کھل جاتے ہیں جہاں سے بادِ صبا کی لپیٹیں خوشبو اور ٹھنڈک کے ساتھ آتی رہتی ہیں، یہاں تک کہ اللہ عز و جل اس کو اس خواب گاہ سے قیامت کے قائم ہو جانے پر اُٹھائے۔ (تفسیر ابن کثیر)

مزید پڑھیں:  اسرائیلی مظالم، کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ کا احتجاج دیگر جامعات تک پھیل گیا