نئے سیاسی سیٹ اپ کی تیاریاں!

پنجاب میں تبدیلی حکومت اور دوبارہ حکومت سازی کے امکانات بڑھ گئے ہیں، اقتدار کے شراکت داروں کے درمیان قربتیں بڑھنے لگی ہیں، پرویزالٰہی ایک بار پھر مرکز نگاہ ہیں، انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ بنائے جانے کا امکان ہے، وہ فی الحال تحریک انصاف کے اتحادی ہونے کی وجہ سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں، مگر نئے سیاسی اتحاد کی بنیاد پر وہ پی ڈی ایم کی طرف سے وزیر اعلیٰ بن سکیں گے، چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادے چوہدری سالک حسین نے دعویٰ کیا ہے کہ ق لیگ کے6ارکین بغاوت کے لئے تیار ہیں، اگر ق لیگ کے چھ اراکین تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو پی ڈی ایم کو پنجاب میں اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کرانے میں اکثریت حاصل ہو جائے گی،کیونکہ اس وقت پنجاب میں تحریک انصاف اتحاد کے پاس190ووٹ ہیں جبکہ پی ڈی ایم کے پاس180ووٹ ہیں، ق لیگ کے کل دس ووٹ ہیں اگر پرویز الٰہی پی ڈی ایم کے امیدوار بنتے ہیں تو ق لیگ کے تمام ووٹ ساتھ آئیں گے لیکن اگر کسی وجہ سے پرویز الٰہی تحریک انصاف کا ساتھ نہیں چھوڑتے ہیں تو پھر6ووٹ الگ ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، اس صورت میں بھی تحریک انصاف پنجاب میں اکثریت کھو دے گی۔ اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ ن پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے پر آمادہ ہو گئی ہے، اس مقصدکے لئے چوہدری شجاعت حسین، میاں نواز شریف اور پرویز الٰہی کے درمیان ماضی کے اختلافات ختم کر کے قریب آنے کی اطلاعات ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پرویز الٰہی پنجاب میں وزیر اعلیٰ کیلئے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ مونس الٰہی مگر اب بھی تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، پرویز الٰہی کو چونکہ وزارت اعلیٰ کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے اس لئے قوی امید ہے کہ وہ پی ڈی ایم کی پیشکش قبول کر لیں گے، کیونکہ اس صورت میں چوہدری برادران کا دیرینہ تعلق بحال ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پرویز الٰہی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کے ساتھ نہیں ہیں، یوں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے اہم اتحادی ہونے کے باوجود ان کی ترجیحات اور سیاسی بیانیہ بالکل مختلف ہے، اس لئے پرویز الٰہی پنجاب میں نئے سیاسی اتحاد کا اہم حصہ ہوں گے۔
زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو پنجاب میں اقتدار کی تبدیلی کیلئے پی ڈی ایم کے حق میں حالات سازگار دکھائی دیتے ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ پرویز الٰہی کے تحریک انصاف سے پی ڈی ایم میں آنے سے کیا پنجاب کے عوام کو بھی کوئی فائدہ ہو گا؟ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب 12کروڑ سے زائد آبادی کا صوبہ ہے، جسے آدھے سے زیادہ پاکستان بھی کہا جاتا ہے، اس صوبے میں گزشتہ ایک برس سے سیاسی عدم استحکام سر چڑھ کر بول رہا ہے جبکہ عثمان بزدار کے چار برس کی کارکردگی محتاج بیان نہیں ہے،تحریک انصاف کے رہنما خود اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ درست نہ تھا، اس اہم ترین صوبے میں اگر سیاسی کھیل تماشا جاری رہے گا تو صوبے کی تعمیرو ترقی کیسے ہو سکے گی؟ سیاسی جماعتوں کی صورتحال یہ ہے کہ وہ آپس کی لڑائیوں میں مصروف عمل ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کوشاں ہیں، یہ جمہوریت کی روح کے منافی ہے، جمہوریت کی روح یہ ہے کہ عوام جس سیاسی جماعت کو ووٹ کے ذریعے حکمرانی کا مینڈیٹ دے دیں اسے آئینی مدت پوری کرنے دینی چاہئے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت پی ڈی ایم میں لگ بھگ تیرہ سیاسی جماعتیں شامل ہیں، جس کے مدمقابل تحریک انصاف ہے، اس اتحاد سے واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو آئوٹ کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، اتحادی جماعتیں اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن کیااس سے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے؟
پاکستان جیسے جمہوری معاشروں میں سیاسی اتحادوں کا بنیادی مقصد سیاسی مقاصد کا حصول ہوتا ہے، جب ایک سیاسی جماعت کے لئے حریف کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے تو دیگر سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں بھی ایسا ہی سیٹ اپ تشکیل دیا گیا ہے، اس طرح کے سیاسی اتحاد کی بھاری قیمت ملک و قوم کو چکانی پڑتی ہے، کیونکہ جب اتحادی حکومت میں متعدد سیاسی جماعتیں شامل ہوتی ہیں تو کسی ایک جماعت پر ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔ اتحادی جماعتوں میں متعدد جماعتوں کی شمولیت سے کابینہ کا حجم بڑھ جاتا ہے، جو معیشت پر اضافی بوجھ بنتا ہے، گزشتہ آٹھ ماہ سے اتحادی حکومت کی کارکردگی اور معیشت کی صورتحال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر قائم ہونے والے اتحاد ملک و قوم کیلئے کتنے سود مند ہوتے ہیں۔ سو ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی روح کو مد نظر رکھیں اور سیاسی مفاد کیلئے اتحاد کی بجائے ملک وقوم کے مفاد کو سامنے رکھ کر اتحاد قائم کریں۔ عوام کی فی کس آمدن،خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ معاشی موازنہ اور تجارتی حجم سے ہی کسی ملک کی ترقی کو جانچا جا سکتا ہے، خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ جب ہم گزشتہ دو دہائیوں کا موازنہ کرتے ہیں تو پاکستان بہت پیچھے کھڑا دکھائی دیتا ہے، حکمران اتحاد میں شامل تقریباً سبھی جماعتیں متعدد بار حکومت کا حصہ رہ چکی ہیں، مگر کوئی بھی جماعت موجودہ حالات کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، جب تک سیاسی جماعتیں ذمہ داری قبول نہیں کریں گی ہمارے حالات تبدیل نہیں ہوں گے، عوام کبھی ایک جماعت سے امید لگائیں گے کبھی دوسری جماعت سے، حالانکہ انہیں متعدد بار پہلے بھی آزما چکے ہوں گے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے کوشش کی جائے، اس وقت پی ڈی ایم میں ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں شامل ہیں، جو ماضی میں ایک دوسرے کی سخت حریف رہ چکی ہیں، یہ جماعتوں اختلافات کو بھلا کر ایک پیج پر جمع ہو سکتی ہیں تو پھر تحریک انصاف ایسا کیوں نہیں کر سکتی ہے، مذاکرات ہی تمام مسائل کا حل ہیں، جس میں تمام جماعتوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
شدت پسندوں کیخلاف فورسزکی کامیاب کارروائی
بنوں ریجن کے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو اطلاع موصول ہوئی کہ دہشتگردوں کے ایک گروہ نے پاک افغان بارڈر پار کیا ہے، سکیورٹی فورسز نے اطلاعات موصول ہونے کے بعد شدت پسند عناصر کو روکنا چاہا تو انہوں نے فائرنگ کھول دی، چونکہ سکیورٹی اہلکار مکمل تیاری کے ساتھ گئے تھے اس لئے شدت پسند عناصر کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا اور4شدت پسند عناصر ہلاک ہو گئے، شناخت پر معلوم ہوا کہ ہلاک ہونے والوں میں داعش کا کمانڈر بھی شامل ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ہلاک ہونے والا کمانڈر ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے فورسز کو مطلوب تھا۔ سکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس اطلاعات کی بناء پر اگرچہ شر پسندوں کے منصوبے کو ناکام بنا دیا ہے جس میں کچھ ہلاک اور کچھ بھاگنے پر مجبور ہوئے مگر بنوں میں داعش کے کمانڈر کی موجودگی خطرے کی علامت ہے، ریاست کو اس مسئلے کا مستقل حل نکالنا ہو گا۔

مزید پڑھیں:  غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت