مسکت جواب کی ضرورت

بلوچستان کے علاقہ چمن میں افغان بارڈر فورسز کی جانب سے شہری آبادی پر بھاری ہتھیاروں سے بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں6 پاکستانی شہری شہید اور17افراد کے زخمی ہونے کا واقعہ ناقابل برداشت ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق افغان بارڈر فورسز کی جارحیت کا پاکستانی سرحدی دستوں نے موثر جواب دیا تاہم علاقے میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق واقعے کے بعد پاکستان نے کابل میں افغان حکام سے بھی رابطہ کیا ہے اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات روکنے کے لئے سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس حوالے سے لیویز حکام کا مزیدکہنا ہے کہ پاک افغان بارڈر باب دوستی ہر قسم کی آمدورفت کے لئے بند کر دیا گیا ہے دوطرفہ تجارت معطل کردی گئی ہے اور کسٹم ہائوس خالی کر دیا گیا ہے۔ لیویز حکام کے مطابق پاکستانی مال بردار اور خالی ٹرک باب دوستی کے دونوں جانب پھنس گئے ہیں۔پاک افغان سرحدوں پرافغانستان سے بار بار فائرنگ اور حملوں کے واقعات پر اب تک پاکستان کی جانب سے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیاگیا اب اس کے مزید اعادے کی گنجائش نہیں یہ عناصر لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے کی تصویر ہیں جن کو مسکت جواب دے کر ہی خاموش کیا جاسکتا ہے بار بار کے سرحدی حملوں اور شہادتوں کے واقعات کے بعداب پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بھی جہاں سے اس کی منصوبہ بندی اور حملے ہوتے ہیں ان مقامات کو نشانہ بنائے ۔ قبل ازیں گزشتہ ماہ کی سترہ تاریخ کو بھی اس قسم کاواقعہ یہیں پیش آیا تھا جس پر بعد میں معذرت کر لی گئی تھی اور آئندہ اس طرح کے واقعے کااعادہ نہ ہونے کی تسلی کرادی گئی تھی لیکن واضح یقین دہانی اور وعدے کے باوجود اس کا پاس نہیں رکھا گیا بلکہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ حملہ کیاگیا جس کا مسکت جواب دیاگیالیکن پہل کاری کرنے والوں کوصرف مسکت جواب کافی نہیں ہوتا بلکہ ان کو مزہ چکھانے کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے کہ آئندہ کے لئے محتاط رہا جائے ۔ ایک پڑوسی ملک ہونے کے ناتے افغانستان سے جس طرح کے سلوک اورتعلقات کی توقع کی جاسکتی ہے اس ضمن میں پاکستان کو مایوسی ہی کا سامنا ہوتا آیا ہے ۔اس کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کمزوری سمجھا جاتا ہے امر واقع یہ ہے کہپاک افغان سرحد کے احترام بارے کابل حکومت کے اقدامات قابل اطمینان نہیںسرحدی مقامات پر باربارپیش آنے والے واقعات اور خاص طورپرچمن بارڈرپرمختصر مدت میں دوسرا بڑاواقعہ ناقابل برداشت ہے اس ضمن میں پاکستانی حکام کی جانب سے جو مطالبہ کیاجاتا رہا ہے طالبان حکومت کواسے پورا کرنے میں لیت ولعل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے تھا طالبان حکومت اولاً اس واقعے کی روک تھام میں ناکامی کاشکارچلے آئے ہیں جبکہ بعد ازاں ذمہ عناصر کے خلاف بھی کارروائی میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہوتے ہیں ایسے میں افغان حدود سے فائرنگ کے بعد پاک افغان چمن بارڈر کی بندش سنجیدہ معاملہ ہے طالبان کی جانب سے فائرنگ میں ملوث افراد کو پاکستان کے حوالے کیے جانے تک پاک افغان چمن بارڈر کھولنے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہونی چاہئے اور پاکستانی حکام کو مسئلہ حل ہوئے بغیر دوطرفہ آمدوفت کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ جب تک سرحدی احترام اور خاص طور پر اپنی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کی طالبان حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی اس وقت تک دونوں ملکوں کے درمیان اچھی ہمسائیگی اور ہمسایوں کے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے اورنہ ہی ایسا ہونا ممکن ہے اس کاانحصار کابل کے رویے پر ہے کہ وہ کس قدر ذمہ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ سرحدی بندش اور تجارت کے متاثر ہونے میںاگرچہ دونوں ممالک کا نقصان ہے لیکن طالبان حکومت کے لئے سرحد کی بندش کہیں زیادہ مشکلات کا حامل معاملہ ہے جس کی حساسیت کا ان کو ادراک کراکے موجودہ مسئلے کے حل اور آئندہ کے لئے اس کا خاص طور پر تدارک کے اقدامات کرنے چاہئیں اور اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جانا چاہئے۔اب وقت آگیا ہے کہ افغان حکمرانوں کو اس امر کاسنجیدگی سے احساس دلانے کے لئے نہ صرف چمن سرحد بلکہ طور خم سرحد اورغلام خان و ارندوسلیم خان سرحد بھی بند کر دینی چاہئے اور ا س ضمن میں سفارتی سطح پر بھی سخت الفاظ میں احتجاج کی ضرورت ہے کابل میں جس طرح پاکستانی ناظم الامور کو نشانہ بنانے کی سعی کی گئی اور حکومت کی جانب سے سفارتکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری سے کوتاہی برتی گئی بعد کے واقعات سے اس امر کا عندیہ ملتا ہے کہ وہ اتفاقی واقعہ نہ تھا بلکہ منصوبہ بندی کے ساتھ پاکستانی ناظم الامور کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جسے ایک جری باڈی گارڈ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ناکام بنا دیا تھا۔ طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ ا گر برادرانہ اور اسلامی اخوت پر مبنی تعلقات نہیں رکھ سکتی تو کم از کم ایک پڑوسی ملک پر حملہ کے مترادف جیسے واقعات کی روک تھام کرے بصورت دیگر سخت کاررائی کے لئے تیار رہے اس طرح کے واقعات ناقابل برداشت ہوتے جارہے ہیں اور حکومت و عساکر پاکستان پر عوام کی جانب سے اس دبائو میں اضافہ فطری امر ہو گا کہ وہ صبر و تحمل کی پالیسی پر نظر ثانی کرے جو کوئی احسن صورت نہ ہوگی لیکن جس طرح کے تواتر سے سرحدی حملے ہو رہے ہیں اس پر بھی زیادہ عرصہ خاموش نہیں رہا جاسکتا بہتر ہو گا کہ امارت اسلامی کے امراء سرحدوں پر بے گناہوں کا خون بہانے والی کارروائیوں کی اجازت نہ دیں اور ہمسایہ ملک کے ساتھ بہتر ہمسائیگی کا مظاہرہ کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  سرکاری ریسٹ ہائوسز میں مفت رہائش