افغان پالیسی ۔ ہم عرض کریں تو شکایت ہوگی

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف جارحانہ طرزعمل کا مظاہرہ ہو یا سرحدی خلاف ورزیوں اور سرحد پر لگی باڑ کو ہٹانے کے حالیہ واقعات میں دراندازوں کی افغان ریاستی حکام کی جانب سے سرپرستی نہ صرف حیران کن ہے بلکہ یہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے کھلا چیلنج بھی۔ گزشتہ روز بھی چمن میں پاک افغان سرحد پر افغان فورسز کی اشتعال انگیز فائرنگ اور گولہ باری سے6 پاکستانی شہید جبکہ20سے زیادہ زخمی ہوئے۔ افغان فورسز نے اس شقاوت قلبی کا مظاہرہ اس وقت کیا جب بارڈر مینجمنٹ کے پاکستانی اہلکاروں نے نامکمل دستاویزات رکھنے والے بعض افغان شہریوں کو زبردستی پاکستان میں داخل ہونے سے روکا اس قانونی اقدام پر افغان فورسز کا مشتعل ہونا اور فائرنگ و گولہ باری کرنا نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس امر کا متقاضی بھی کہ اخوت اور حق ہمسائیگی کی قدروں کے احترام کے ساتھ ساتھ اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے موثر حکمت عملی اپنائی جائے۔ گزشتہ روز کے افسوسناک سانحہ کے بعد چمن میں پاک افغان سرحد کو ہر قسم کی آمدورفت کے لئے بند کردیا گیا۔ بظاہر متعلقہ افغان حکام نے معاملے کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے مگر یہ اعلان بھی ماضی کی طرح ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے جیسا ہی ثابت ہوگا۔ حالیہ عرصہ میں افغان طالبان فورسز نے جس طرح دراندازی کی حوصلہ افزائی کی اور خود بھی سرحدوں کے حوالے سے موجود بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا اس پر اہل پاکستان میں تشویش بڑھ رہی ہے ۔ ستم یہ ہے کہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے بعد افغان طالبان کی جانب سے بھی جاری کئے گئے علاقے کے ایک خیال نقشے میں جس طرح پاکستان کے بعض علاقوں کو امارات اسلامیہ جیسی خیالی ریاست کا حصہ دکھایا گیا اس پر وزارت خارجہ کا کوئی بیان سامنے آیا نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا موقف ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان اور ان کے ہم خیال جتھوں کا ہوا ہر شخص کی زبان بندی کا سبب بنا ہوا ہے۔ افغان طالبان کی قیادت کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ ماضی میں ہر مشکل وقت میں پاکستانی حکومت اور عوام نے افغان بھائیوں کی دامے درمے اور سخنے مدد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ افغان حکومت پر اپنے حالیہ تسلط کے بعد جو رویہ افغان طالبان نے اپنارکھا ہے وہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس امر کا متقاضی بھی کہ ہمیں بھی اپنی افغان پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیناچاہئے ۔ پاکستانی پالیسی سازوں کو بطور خاص سمجھنا ہوگا کہ افغان پالیسی افغانوں کے نہیں پاکستان کے وسیع اور طویل المدتی مفاد پر استوار ہونی چاہیے۔
افغانستان سے امریکہ و نیٹو افواج کے انخلا کے عمل کو یقینی بنانے والے دوحہ معاہدہ میں بہت صاف تحریر ہے کہ افغان طالبان اپنی سرزمین عالمی امن اور پڑوسیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے غیرملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغان طالبان افغانستان میں موجود شدت پسند گروہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کریں گے افسوس کہ نہ صرف دوحہ معاہدہ کی کھلے بندوں خلاف ورزی ہورہی ہے بلکہ افغان حکومت کی سرپرستی میں افغان حدود میں پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف منظم نہ ہوئیں بلکہ گزشتہ ایک سال سے دراندازی کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ اگست2021 کے بعد ازسرنو افغان امور مملکت سنبھالنے والے افغان طالبان برتری کے ایک ایسے زعم میں مبتلا ہیں جو انہیں حقیقت پسندانہ رویہ اور پالیسیاں اپنانے سے روکے ہوئے ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران رونما ہوئے دہشت گردی کے واقعات کے کرداروں کا افغان حدود سے پاکستان میں داخل ہونا اور دہشت گرد تنظیموں کے افغان حدود میں محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی پر رسمی احتجاج بہت ہوچکا۔ دوسری طرف پاکستانی سماج اور تجارت پر منفی اثرات مرتب کرنے والے معاملات اس کی سرپرستی میں جاری ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ روز امریکی ڈالرز کی افغانستان سمگلنگ کے بعض ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہماری رائے میں اس کارروائی کا آغاز بہت پہلے اور خصوصا گزشتہ برس اکتوبر میں اس وقت شروع ہوجانا چاہیے تھا جب پہلی بار یہ ٹھوس شواہد سامنے آئے کہ اشیائے ضروریہ کی سمگلنگ کی طرح ڈالر کی سمگلنگ میں بھی افغان طالبان کے بعض رہنما اور ان کے عزیز شامل ہیں۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اگر ڈالرز کی غیرقانونی طور پر افغانستان منتقلی کے عمل کو پچھلے سال اکتوبر نومبر یا رواں برس کے آغاز پر سختی سے روک لیا جاتا تو ہمیں اس بحرانی صورتحال سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ افغان ٹریڈ کے نام پر منگوائی گئی اشیا کو سمگلنگ کے لئے محفوظ کرنے کے لئے بڑے بڑے گودام پاک افغان سرحد پر افغان حدود میں سرحد سے محض چند کلومیٹر پر قائم ہیں، الیکٹرانکس کا سامان اور دوسری اشیا جن کی افغانستان میں کھپت محض10فیصد بھی نہیں بھاری مقدار میں منگوائی جاتی ہیں اور بعدازاں یہ اشیا سمگل کرکے واپس پاکستان پہنچادی جاتی ہیں جس سے مقامی صنعت اور تجارت پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے آرہے ہیں۔ ماضی میں عوامی اور تجارتی حلقوں کی جانب سے، حکومتوں کو اس صورتحال پر جب بھی متوجہ کیا گیا ایک دو نمائشی بیان جاری کرکے ذمہ داران فرض سے عہدہ برآ ہوگئے۔ ان حالات میں عوام اور تجارتی حلقے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی پاکستانی معیشت پر بوجھ بنی افغان ٹریڈ کی آڑ میں جاری سمگلنگ سے چشم پوشی کے مظاہرہ میں مصروف ہے؟ ہم مکرر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری خیال کرتے ہیں کہ پچھلے برس اگست میں افغان طالبان نے پاک افغان سرحدم پر مسلمہ بین الاقوامی قوانین کے اطلاق کے ساتھ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے دینے کی جو یقین دہانی کرائی تھی اس سے انحراف پر حکومت محض رسمی احتجاج کو ہی کیوں کافی سمجھتی ہے کیا حکومت کے ذمہ داران نہیں سمجھتے کہ اگر یہ سلسلہ روکا نہ گیا تو قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ؟ اندریں حالات یہ امر بھی کوئی راز نہیں رہا کہ افغان حدود سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تنظیموں کو بھارت افغانستان میں مدد فراہم کررہا ہے کیا بھارت اور دہشت گردوں کا یہ گٹھ جوڑ افغان حکومت کے علم میں نہیں یا پھر یہ اس کی رضامندی سے ہے اور وہ سہولت کاری میں مصروف ہے؟ اصولی طور پر کسی تاخیر کے بغیر اس سارے معاملے پر پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی میں تفصیل کے ساتھ غور ہونا چاہیے اور افغان پالیسی کا نئے سرے سے جائزہ لے کر قومی مفادات اور سلامتی کے تحفظ کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ افغان حکومت کی جانب سے دوحہ معاہدہ کی خلاف ورزی اور بعض دوسرے ناپسندیدہ امور میں سہولت کاری کا معاملہ پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے رکھنا ہوگا۔ شرع میں شرم کیسی، ہمارے لئے پاکستان، اس کی قومی سلامتی اور عوامی مفادات اہم و مقدم ہونے چاہئیں۔

مزید پڑھیں:  پاکستان ہاکی ،غیر معمولی واپسی