قومی سلامتی و تحفظ اور درپیش چیلنجز

ایک ایسے وقت میں بھی خیبر پختونخوا جیسے دہشت گردی کے خطرے سے دوچارصوبے کے وفاق صوبے میں وفاق کے نمائندے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی تو درکنار باقاعدہ مناقشت جاری ہے جب تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات پیش آرہے ہیں اور آئے روز صورتحال میںسنگینی کے عنصرمیں اضافہ ہو رہا ہے اس نازک موقع پربھی بجائے اس کے کہ سیاسی جماعتیں اور حکومتی اکابرین ہوش کے ناخن لیں طفلانہ طرز عمل سے باز نہیں آتے وفاق اور صوبے کے درمیان دیگر نوعیت کے تعلقات سے قظع نظر اس اہم اورحساس صورتحال کے باوجود بعد کی کیفیت ہے ہمارے وقائع نگار خصوصی نے اس امر کی درست نشاندہی کی ہے کہ وفاقی اورخیبر پختونخوا حکومتوں کے درمیان جاری رسہ کشی اور سیاسی تقسیم کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور دونوں حکومتیں دہشت گردی کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے آپریشن اور صوبائی حکومت کی طرف سے مذاکرات کا بیانیہ دہرایا جارہا ہے اور دونوں حکومتوں کے حکام کسی ایک فارمولا پر متفق نہیں ہورہے ہیں جس سے عوام میں غیر یقینی بڑھ رہی ہے۔تشویش کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز کواس وقت صرف اس سنگین مسئلے کا سامنا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ درپیش ہے دہشت گردی بلاشبہ بڑا چیلنج ضرور ہے اس ساری مشکل صورتحال میں قابل اطمینان امر یہ ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کا طویل تجربہ رکھنے والی فوج اس مسئلے سے نمٹنے کی پوری صلاحیت کی حامل ہے اور حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے جس سے قطع نظر اصل مشکل معاشی حالات اور قرضوں کی واپسی و ادائیگی کا ہے اندرونی قرضوں کی واپسی داخلی مسئلہ ہے اس میں تعجیل کی ضرورت نہ بھی ہو لیکن غیر ملکی قرضوں کی واپسی کی صورتحال دن بدن سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورتحال پریشان کن ہوتی جارہی ہے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور تاریخ میں پہلی بار مرکزی بنک کے ذخائر تشویشناک حد تک کم ہوگئے ہیں اسٹیٹ بنک کے مطابق ایک ہفتے کے دوران مرکزی بینک کے ذخائر29کروڑ چالیس لاکھ ڈالرز کی کمی سے6ارب ڈالرز سے بھی نیچے آکر 5 ارب 82کروڑ19لاکھ ڈالرز کی تشویشناک سطح پر پہنچ گئے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے 26اکتوبر کو طے شدہ مشن کے دورے کی تصدیق نہ کیے جانے کے بعد پاکستان کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، ڈیفالٹ کے خطرات بڑھ گئے ہیں اور سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بار بار کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کی عدم موجودگی میں ملک ڈیفالٹ کی طرف جائے گا۔ موجودہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز کہا کہ پاکستان بین الاقوامی ادائیگیوں میں ڈیفالٹ نہیں کرے گاکیونکہ حکومت نے رواں مالی سال 2023ئ
کے لئے31سے32ارب ڈالرز کی تمام ضروریات کا بندوبست کر لیا ہے ۔ دوسری جانب زرمبادلہ کا بحران بھی بدستور شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا کے مطابق پاکستان بیرونی ادائیگیوں کی ذمے داریاں پوری کرے گا، ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی امکان نہیں، سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر کے حصول کے لئے بات چیت جاری ہے، چین سے بھی 3ارب ڈالر کے لئے بات چیت کر رہے ہیں ۔حکومت کے پاس اس ساری صورتحال کا وہی پرانا حل اور قرضوں کے لئے جاری بھاگ دوڑ ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے معیشت دانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں اور آخر کب تک قرضوں پرقرضے لئے جاتے رہیں گے اور خدانخواستہ کسی مرحلے پر ان کی واپسی کے قابل نہ رہے توملک وقوم کوکن حالات اور کس قسم کی صورتحال سے دو چار ہونا پڑے گا اس کا تصور کرکے ہی جھری جھری آتی ہے دہشت گردی کی صورتحال ہو یا قرضوں کی واپسی کا سنگین مسئلہ ان حالات میں قومی اتحاد ویکجہتی اور سیاسی مفاہمت اور تنازعات سے گریزکی فضا ضروری ہے جس کا تقاضا ہے کہ ملک میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ ہی کافی نہیں بلکہ پوری طرح ہم آہنگی ہونی چاہئے اور معاملات کاحل باہم گفت و شنید اورمذاکرات کے ذریعے نکالا جائے جس کے لئے پارلیمان موزوں فورم ہے صورتحال کاتقاضا ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کو معمول پر لانے کی ضرورت ہے اور اعتدال پرمبنی سیاسی مفاہمت کی فضاء معیشت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے وسط مدتی و طویل المدت اقدامات پراتفاق کرکے اس پر عمل پیرا ہو جائے اس ضمن میں میثاق معیشت پر زور تو دیا جاتا ہے مگر اس جانب پیش رفت کی کوئی صورت تلاش نہیں کی جاتی ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشی اہداف اور نظم ونسق کو بہتر کیاجائے اور ملکی وسائل کو احسن طریقے سے بروئے کار لایا جائے ملک میں امن وامان کی صورتحال پرتوجہ ے کر سرمایہ کاری میں اضافہ کی فضاء پیدا کی جائے اور اقتصادی ترقی کے عمل کو تیز کیا جائے علاوہ ازیں ماہرین نے اکتیس ابواب پرمشتمل جو طویل دستاویز تیارکی ہے اور سفارشات تجویز کئے ہیں اس جانب پیش رفت کی جائے بلاشبہ ان ا ہداف کے حصول کے لئے ایک وسیع نظریہ اور پھر ملک میں معاشی سماجی اور سیاسی پیش رفت کی ضرورت ہوگی جس کا ادراک اور باہم روابط و مفاہمت کی فضا کا قیام عمل میںلانا ہوگا۔ بدقسمتی سے پاکستان 1988ء کے بعد سے اب تک سیاسی عدم استحکام کی راہ پر چل رہا ہے جس کے اثرات ہماری معیشت اور امن وامان سے لے کر مہنگائی اور روز مرہ کے معمولات تک پر پڑ رہے ہیں جاری ہر دو صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کوبرداشت کرنے اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کے احترام کی روش اختیارکریں سیاسی اورمعاشی طور پر جن سخت فیصلوں کی ضرورت ہے اس ناگزیر صورتحال کا ادراک کیا جائے اوراس کے مطابق خود کو ڈھالا جائے ۔جب تک ملک میں ہر سطح پر وسیع تر قومی مفاد کی سوچ پیدا نہیں ہو گی ان حالات سے نبرد آزما ہونے میں اسی طرح کی مشکلات کابھی سامنا رہے گا۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے