فیصلہ کن اقدام کی ضرورت

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کے عزم کے ساتھ فیصلہ کیا گیا کہ مشکل سے حاصل امن کو کسی بھی صورت خراب کرنے نہیں دیا جائے گا۔خیال رہے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ایک ایسے موقع پر منعقد کیا گیا ہے جب صوبہ خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اعلامیہ میں اس عزم کا اظہار کیاگیاہے کہ پاکستان کی بقا، سلامتی اور ترقی کے بنیادی مفادات کا نہایت جرأت وبہادری، مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے تحفظ کیا جائے گا۔دہشتگرد پاکستان کے دشمن ہیں۔ پوری قوم دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف ایک بیانیے پر متحد ہے۔ پاکستان کو للکارنے والوں کو پوری قوت سے جواب ملے گا۔اگرچہ بلوچستان اور اسلام آباد میں بھی کچھ واقعات ہوئے لیکن خیبر پختونخوا جس طرح پہلے دور میں بری طرح دہشت گردی کا شکار رہا اس مرتبہ بھی خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے مبینہ خود کش بمبارکے بھی خیبر پختونخوا ہی سے اسلام آباد جانے کی دوسری مرتبہ اطلاع ہے ۔ اس ساری صورتحال میں جہاں اس ساری صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقدامات کی ضرورت ہے وہاں صوبائی حکومت کو بھی اس ساری صورتحال کے حوالے سے اہم فیصلوں میں اعتماد میں لینے کی بھی ضرورت ہے جبکہ صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی معاملات کو امن و امان اور دیگر صوبائی حکومتی و انتظامی معاملات جس کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہوں یا پھر ان معاملات میں وفاق اور وفاقی اداروں کا دائرہ اختیار آتا ہو اس حوالے سے پوری طرح سے تعاون اور اعتماد کی فضاء قائم کرنے کی ذمہ داری نبھانی چاہئے تاکہ اس سنگین ہوتی صورتحال سے نمٹنے کی ضرورت پوری ہو۔تشویش کی بات یہ ہے کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال مسلسل بگڑتی جارہی ہے سوات میں طالبان کی آمد وواپسی کے عمل میں حکومت وقت کا کردار نہ ہونے کے برابر رہا سوات کے عوام نے جس عزم و حوصلے کے ساتھ دہشت گردی کے ممکنہ طور پر عود کر آنے کی صورتحال کو بھانپ کر ہر عمر اور ہر طبقے ‘ہر گروہ ہر سیاسی جماعت کے کارکنوں کا بلا امتیاز ایک ہی مقصد اور ایک ہی نعرے کے ساتھ جس طرح اتحاد و یکجہتی کا اظہار کیا بعید نہیں تھا کہ ایسا نہ ہونے کی بناء پر آج وہاں کی صورتحال ممکنہ طور پر مختلف ہوتی بعد کے حالات سے اس امر کو توقیت ملتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا پوری طرح صفایا نہیں ہوسکا تھا خیال تھا کہ وہ افغانستان چلے گئے تھے اور وہاں پر ان کے ٹھکانے اور مراکز ہیں۔ ٹی ٹی پی کے حوالے سے ہماری حکمت عملی دوغلے پن کا شکار رہی ہے ہم آج تک اس امر کا قطعی فیصلہ نہیں کر پائے کہ ان کا مکمل طور پر صفایا کیا جائے یا پھر ان سے مذاکرات و معاملت کی جائے حکومتی اقدامات اور خیالات سے کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ان عناصر کااب مکمل صفایا کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے پھر اچانک مکالمے کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اس وقت بھی جبکہ صورتحال میں پھرسے تبدیلی آئی ہے خود وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کالعدم تحریک طالبان سے متعلق پاکستان کی پالیسی پر نظرثانی کرنے پر زور دیا ہے۔ واشنگٹن میں امریکی میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق ہمیں اپنی پالیسی پرنظرثانی کرنی چاہیے اور ٹی ٹی پی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جامع طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آسان راستہ افغان عبوری حکومت کیساتھ تعاون کا ہے تاکہ اس مسئلے سے نمٹا جاسکے اور یہ میرا پسندیدہ راستہ ہوگا لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کا یہ واحد راستہ نہیں ہے۔ٹی ٹی پی سے ایک جانب پنجہ آزمائی اور دوسری جانب مذاکرات کی مساعی معاملات کاجائزہ لینے اور مخالف کو تولنے کی حد تک اختیار کردہ حکمت عملی کے تحت تو درست ہو سکتا ہے مگر بدقسمتی سے سالوں سے جاری اس کشمکش کا خاتمہ نہ ہونے کے باعث اس کا پالیسی کے طور پرجائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ افغانستان کے طالبان اور افغان پالیسی ہو یا پھر ٹی ٹی پی اور ضم اضلاع و بعض دیگر اضلاع میں شدت پسندوں کی باربار آمد و موجودگی اور ان سے تصادم کی صورتحال کسی بھی حوالے سے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کچھ اچانک یاپھر کسی کنٹرول کے بغیر ایسا ہو رہا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ اچانک کہاں سے نمودار ہوجاتے ہیں اور پھر کہاں چلے جاتے ہیں ہم افغان حکومت کو اپنی سرحدوں کی نگرانی میں ناکامی اور اپنی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا تو آسانی سے الزام دیتے ہیں لیکن یہ سوال نہیں پوچھا جاتا کہ خود ہمارے انتظامات اور تیاریاں کہاں تھیں اب جبکہ یہ معاملہ قومی سلامتی کمیٹی میں زیر غور ہے تو اس پر یکبارگی غور کرکے فیصلہ کیا جائے ان عناصر کے مطالبات اور خیالات کے پیش نظر دیکھا جائے تو یہ ناقابل اعتبار لوگ ہیں اور نہ ہی وہ جن شرائط کو منوانے کے خواہاں ہیں دستور پاکستان میں اس کی گنجائش ہے اب ان سے معاملت یا تو غیرمشروط طورپر ہتھیار ڈالنے اور پرامن رہنے کی ضمانت دینے پر ہونی چاہئے یا پھر ریاست اپنی طاقت کا استعمال کرکے اس فتنے کا سر ہمیشہ کے لئے کچل دے اور پہلے کی طرح باقیات چھوڑنے اور فرار کے راستے پوری طرح مسدود کرکے بچے کچے عناصرکاصفایا کیا جائے جبکہ افغان حکومت سے اس حوالے سے مذاکرات کرکے مسئلے کا مستقل حل نکالا تاکہ وہاں بھی ان کے لئے کوئی جگہ نہ رہے یا پھر وہ مطیع ہو جائیں۔ ۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو