اٹھارہویں ترمیم میں ترامیم

1973 میں پاکستان میں متفقہ آئین منظور ہوا اور یوں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد اس کے بڑے ایک جگہ جمع بھی ہوئے اور کامیاب اُٹھے بھی اور یہ بات درست ہے کہ ایک اچھا آئین مرتب بھی کر سکے لیکن وقت کیساتھ ساتھ اس آئین میں مسلسل ترامیم ہوتی رہی ہیں۔ انہیں ترامیم میں ایک اٹھارہویں تر میم بھی ہے، اس کا سب سے بڑا کارنامہ آئین کی شق اٹھاون ٹو۔بی کا خاتمہ تھا۔ اس کیساتھ ساتھ اس نے کچھ دیرینہ مطالبات بھی پورے کئے جس میں صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی بھی شامل تھا جو اگرچہ ایک مخصوص گروہ کا مطالبہ تھا لیکن بہرحال اسے پورا کر دیا گیا، اس کیساتھ ساتھ صوبوں کو خوداختیاری دینے کیلئے زیادہ سے زیادہ اختیارات ان کو منتقل کئے گئے اور وفاق کے پاس چند شعبے رہ گئے۔ صوبوں کو اختیارات منتقل ہونا بھی ایک اچھا فعل تھا اور ایسا ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ اختیارات جتنی نچلی سطح پر آئیں گے اتنا ہی بہترطور پر استعمال ہوسکیں گے۔ اختیارات کی منتقلی کیساتھ صوبوں کو قومی آمدنی میں حصہ بھی منتقل ہوا اور مختلف صوبوں کو آبادی کے حساب سے حصہ دیا گیا اس طرح کل قومی آمدنی کا باسٹھ فیصد حصہ صوبوں کے پاس آیا اور اڑتیس فیصد وفاق کے پاس رہ گیا، 2010 سے اب تک یہ ترمیم لاگو ہے اور آئین کا حصہ ہے۔ اب جب کرونا وائرس کی وجہ سے ہنگامی حالات پیدا ہوئے تو وفامی حکومت نے اس ترمیم پر اعتراضات اُٹھائے کہ صوبائی خودمختاری کی وجہ سے ہر صوبہ اپنی حکمت عملی اپنا رہا ہے اور کوئی قومی حکمت عملی نہیں اپنائی جاسکتی۔ اس طرح امدادی رقم کی تقسیم وفاق کی ذمہ داری میں آرہا ہے لیکن اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ وہ اسے پورا کر سکے وغیرہ وغیرہ ۔ اٹھارہویں ترمیم سے کوئی اختلاف نہیں لیکن اس کی کچھ شقوں پر بحث ضرور ہوسکتی ہے خاص کر وہاں جہاں قومی یکجہتی کی بات ہو، مثلاً ہر حکومت برسراقتدار آنے سے پہلے یکساں نظام تعلیم کی بات کرتی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں تو یکساں نصاب تعلیم ہی نہیں ہے تو کیسے توقع کی جائے کہ پورے ملک میں ایک ہی نظام تعلیم رائج ہو سکے گا اور قومی امور اور تاریخ پر یکساں سوچ پیدا کی جا سکے گی۔ اسی طرح صحت کا شعبہ بھی صوبوں کو دیدیا گیا لیکن ہوا یہ کہ بجائے بہتری کے ہر صوبے میں ذمہ داروں نے اپنی ذمہ داری سے نہ صرف چشم پوشی کی بلکہ صحت کے شعبے میں ایک تحقیقی فضا پیدا ہی نہیں کی جا سکی، آج عالمی وباء کے موقع پر ہم اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اسی طرح توانائی کا شعبہ لیجئے کیسکو، پیسکو اور لیسکو وغیرہ وغیرہ کے نام پر ہر صوبہ اور شہر اپنا اپنا کام چلا رہا ہے لیکن قوم ابھی تک لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نہیں نکل سکی۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ ہم نے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے کو ئی فائدہ اُٹھایا ہے بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ ہاں ”کھانے پینے” کے مواقع بڑھا دئیے گئے ہیں۔ اسی طرح کئی دیگر شعبے ہیں جن میں زراعت بھی شامل ہے کو صوبوں کے حوالے کر دیا گیا جبکہ یہی شعبے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی مرکز کے پاس ہوتے ہیں اور صوبائی یا ریاستی سطح کے وزارتوں کیساتھ ملکر انہیں چلایا جاتا ہے۔ دراصل ہمارے یہاں مختلف صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہیں اور ہوتی ہیں لہٰذا وہ صوبے اور سیاسی پارٹیاں نہیں چاہتی کہ اختیارات ان کے ہاتھ سے نکل جائیں۔ اٹھارہویں ترمیم بذاتِ خود کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں لیکن اسے آئین سے ماورا قرار دینا بھی مناسب نہیں لہٰذا اس پر اگر کسی بحث کا آغاز کیا جائے تو اس کو غیرآئینی قرارنہیں دینا چاہئے۔ جس طرح یہ ترمیم کی گئی تھی اسی طرح اس ترمیم میں بھی ترمیم کی جا سکتی ہے۔ اگر وفاق اور صوبوں کے اختیارات میں توازن پیدا کیا جا سکے تو اس میں کوئی برائی ہے نہ آئین کی خلاف ورزی۔ اس وقت مختلف مافیا جس طرح صوبوں کی بنیاد پر طاقتور ہورہے ہیں کم ازکم اسی کا خاتمہ ہو جانا چاہئے۔ صوبے جس طرح کے اختیارات ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے مخالف اقدامات کر رہے ہیں وہ بھی قابلِ افسوس ہیں، ہاں یہ ضروری ہے کہ حکومت کوئی بھی اقدام اُٹھانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک متفقہ نکتے پر لائے کیونکہ اگر اسے بغیر اتفاق رائے کے جلدی میں اُٹھایا گیا تو یہ قوی امکان ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد ایک اور آئین سازی کی ضرورت پڑے گی جو کسی طرح مناسب نہیں۔ ایسا نہ ہو اور نہ کیا جائے کہ وفاقی حکومت صوبوں کی خودمختاری کو نظرانداز کرے انہیں ضرور اختیارات حاصل رہنے چاہئے لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ وفاق سے اپنا حصہ وصول کیا جاتا رہے لیکن اُسے عوام تک نہ پہنچایا جائے اور اگر وفاق اس کیلئے پوچھے تو صوبائی خوداختیاری کا حوالہ دیکر خود کو جواب دہی سے بچا لیا جائے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منقلی اپنی جگہ اہم ہے لیکن جواب دہی اُس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اچھا یا بُرا دونوں صورتوں میں عوام وفاقی حکومت کی طرف دیکھتے ہیں تو اسے اس اچھے یا بُرے کا ذمہ دار بھی ہونا جاہئے جیسا کہ موجودہ صورتحال میں لاک ڈاؤن کا معاملہ تھا کہ وفاق مسلسل کہتا رہا صوبے خودمختار ہیں لہٰذا لاک ڈاؤن کریں یا نہ کریں۔ کچھ فیصلے قومی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا تقاضا کرتے ہیں لہٰذا انہیں ویسا ہی ہونا چاہئے اور اس کیلئے آئین سازی بھی ویسی ہی ہو اور پھر ان فیصلوں کی ذمہ داری بھی ویسی ہی لینی چاہئے لہٰذا اٹھارہویں ترمیم اپنی جگہ اہم اور اچھی سہی اس پر نظرثانی ضرور ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے