اداروں کی توقیرکا مسئلہ

سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمان میں مداخلت کرے گی تو ان کی حدود میں بھی تجاوز ہوگا۔ نجی نیوز ویب سائٹ کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ پارلیمان کی قانون سازی کا حق تسلیم نہیں کرنا تو الیکشن کا مذاق بھی ختم کریں، پارلیمان سپریم کورٹ کے آئین سے متجاوز فیصلے کو ماننے سے انکارکرسکتی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ پارلیمان کو سر نگوں کرنے کے رویے کے خطرناک نتائج ہوں گے، چیف جسٹس اداروں میں ٹکرائوکے ماحول میں کمی لائیں، عدلیہ کو پارلیمان سے جواب الجواب نہیں دیا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ حکومت بھی ہٹ دھرمی ترک کرے، سیاست دان بیٹھ کرانتخابات پر بات کریں، انتخابات دو ماہ قبل کا بعد کا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ ہے انتخابات شفاف و پر امن ہوں۔عدالت اور پارلیمان کے درمیان کسی ایک مخصوص معاملے میں اپنی اپنی بالادستی اور اپنی منوانے کی جوتگ و دو نظر آتی ہے اس نے دو ایسے اہم اداروں کوآمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے جہاں حتمی فیصلہ اور قانون سازی اور اس کی تشریح ہونا ہوتی ہے مشکل امر یہ ہے کہ اس معاملے میں ہر دو اداروں کی اپنی اپنی تشریح اور موقف ہے جس سے ایک دوسرے کے معاملات اور دائرہ کار میں دخل درمعقولات کا تاثر راسخ ہوتا ہے اور کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار ہے اور نہ ہی کوئی ایسا بااختیار اور مقتدر ادارہ یا فورم ہے جس کی مداخلت اور افہام و تفہیم کی مساعی سے اس صورتحال کا حل نکل سکے ۔لے دے کے اسٹیبلشمنٹ رہ جاتی ہے جو غیر جانبدار اور کام سے کام رکھنے کا عزم کرکے اس پر عمل پیرا ہے ان کی جانب سے مصالحت کی کوشش نہ ان کا دائرہ کار ہے اور نہ ہی وہ اس کے مکلف ہیں اس صورتحال سے نکلنے کے لئے ہر ادارے کواپنے دائرہ کار اور دائرہ اختیار تک محدود ہونا چاہئے تاکہ تصادم کی نوبت نہ آئے ۔ دیکھا جائے تو اب تک تسلیم نہ کرنے اور نہ ماننے کے عمل سے جو بے توقیری ہوئی ہے اس کے ا زالے کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ اس صورتحال سے نکلا جائے اور اس پر وقت کی دھول جم جائے پھر بھی جب بھی دھول پر کسی کا ہاتھ پڑے گا تو اس کی بازگشت مستقبل میں بھی سنائی دے گی۔بہتر ہوگا کہ مدمقابل آنے والے فریق پیچھے ہٹیں اور آئین و دستور اور قانون کی بالادستی یقینی بنانے کے اقدامات کوموقع دیں۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت پر اٹھتے سوال